خالق آرزو ۔۔۔ آہٹیں واہمہ ہیں

آہٹیں واہمہ ہیں

ہمنوا سوچنے تو دے مجھ کو
ہمنوا سوچنے تو دے مجھ کو
کس کی خوشبو فضا میں پھیلی ہے
کون دیتا ہے دستکیں در پر
کس کے لہجے کی دلنشینی کا سحر طاری ہوا سماعت پر
عہدِماضی کے آشیانے سے
فاختائیں حسین یادوں کی
ذہن کی ملگجی فضاؤں میں پرکُشاہو گئی مسرت سے
آہٹوں دستکوں کی شدت سے
روح بیتاب ہوتی جاتی ہے
ہمنوا سوچنے تو دے مجھ کو
ہمنوا سوچنے تو دے مجھ کو
سانس بے ربط ہوتی جاتی ہے
دھڑکنیں تیز تر ہیں سینے میں
گزرے لمحوں کی شمعیں روشن ہیں
وسوسے ڈھل گئے تیقن میں
پھر بھی مجھ کو یقیں نہیں آتا
میرے اندر سے کوئی کہتا ہے
آہٹیں دوست بھی ہیں دشمن بھی
آہٹوں کا نہ اعتبار کرو
اکثراوقات یہ بھی دیکھا ہے
آہٹیں واہمہ بھی ہوتی ہیں
ہمنوا سوچنے تو دے مجھ کو
ہمنوا سوچنے تو دے مجھ کو

Related posts

Leave a Comment