شہزاد نیر ۔۔۔ پھندے میں پھنسا ہرن

پھندے میں پھنسا ہرن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انھیں وہی لفظ اچھے لگتے ہیں
جو ان کے دماغ میں دھری
طفلانہ نوٹ بک کے لکیر دار صفحے کی
سیدھی لائنوں پر لکھے گئے ہوں
بے لکیر صفحوں کی آزاد تحریریں
انھیں سیدھے راستے سے بھٹکی ہوئی دکھائی دیتی ہیں
کاش کسی روز وہ زاویہ بدل کر دیکھیں

انھیں خیالات کو قطار در قطار چلانا پسند ہے
اگلے اونٹ کی دم سے بندھی پچھلے اونٹ کی نکیل
قطار چلتی رہتی ہے
بن جانے کہ کدھر کو جاتی ہے
وہ لفظوں کو قدیم نقوشِ پا پر چلانے
اور سوچ کو نکیل ڈالنے کے ماہر ہیں
انہیں آزاد آہو پسند نہیں
کہ وہ خیال کے بے انت میدان میں اونچی چوکڑیاں بھرتا
اور بے سمت بھاگتا ہے
وہ اپنی آنکھوں کی وسعت سے دنیا کا تعین کرتا ہے
اس لیے انہیں
گرہ دار پھندے میں پھنسا ہوا آہو پسند ہے
کچھ دیر تک وہ اس کے حلق سے نکلتی
دردیلی آواز کا لطف اٹھاتے
اور اس کی جان لیوا تکلیف پر طنزیہ مسکراتے ہیں
پھر مقدس قدیمی قہقہوں کے گھٹنوں میں دبا کر
آواز کا قتل کر دیتے ہیں
پرانے راستوں کے پجاری
خوشی خوشی بوٹیاں کھا کر
ہڈیاں خاموشی کے صحرا میں دفن کر آتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment