دل سے جیسے کوئی دلگیر سخن کرتا ہے
ہم سے دائم غمِ شبّیرؑ سخن کرتا ہے
وہی عُشاق ہی مقتل کی طرف جاتے ہیں
جن سے آوازہء شمشیر سخن کرتا ہے
سر ہے نیزے پہ مگر لب پہ ہیں جاری آیات
کس طرح کاتبِ تقدیر سخن کرتا ہے
دل سے مانگا ہے حرم میں کبھی ہونٹوں سے نہیں
خامشی کو بھی وہ تعبیر، سخن کرتا ہے
ہمہ تن گوش ہیں مجلس میں انیسؔ اور دبیرؔ
مدحِ شبیرؑ میں اب میرؔ سخن کرتا ہے
غم میں گویائی کا یارا ہے کسے، پر مختار
دل میں اترا ہے جو اک تیر، سخن کرتا ہے