لوہے کا کمر بند ۔۔۔ رام لعل

لوہے کا کمر بند
۔۔۔۔۔۔۔

بہت عرصہ گزرا کسی ملک میں ایک سوداگر رہتا تھا۔ اس کی بیوی بہت خوب صورت تھی۔ اتنی خوب صورت کہ اس کی محض ایک جھلک پانے کے لئے عاشق مزاج لوگ اس کی گلی کے چکر لگایا کرتے تھے۔ یہ بات سوداگر کو بھی معلوم تھی، اس لیے اس نے اپنی بیوی پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی تھیں۔ اس کی اجازت کے بغیر وہ کسی سے مل نہیں سکتی تھی۔ اس کے قریب قریب سارے ہی ملازم دراصل اس سوداگر کے خفیہ جاسوس تھے جو اس کی بیوی کی حرکتوں پر کڑی نظر رکھتے تھے۔

سودا گر کو کبھی کبھی دو دو، تین تین سال کے لیے دور دور کے ممالک میں بیوپار کے سلسلے میں جانا پڑتا تھا۔ کیونکہ سفر میں کئی سمندر بھی حائل ہوتے تھے جنھیں عبور کرتے وقت کئی بار بحری قزاقوں سے بھی واسطہ پڑ جاتا تھا۔ایک بار وہ ایسی ہی ایک تجارتی مہم پر روانہ ہونے والا تھا۔ گھر چھوڑنے سے ایک رات پہلے وہ اپنی بیوی کی خواب گاہ میں گیا تو اس سے بولا ۔۔۔ "جان من! تم سے جدا ہونے سے پہلے میں تمہیں ایک تحفہ دینا چاہتا ہوں۔ مجھے یقین ہے یہ تحفہ تمہیں ہمیشہ میری یاد دلاتا رہے گا کیونکہ یہ تمہارے جسم کے ساتھ ہمیشہ چپکا رہے گا۔”

یہ کہہ کر سوداگر نے اپنی بیوی کے چاندی کے سے بدن پر کمر سے نچلے حصے کے ساتھ لوہے کا ایک مضبوط کمر بند جوڑ دیا اور کمر بند میں ایک تالا بھی لگا دیا۔ تالے کی چابی اپنے گلے میں لٹکاتے ہوئے بولا۔ " یہ چابی میرے سینے پر ہر وقت لٹکی رہے گی۔ اس کی وجہ سے میں بھی تمہیں یاد کرتا رہوں گا۔”

سوداگر کی بیوی نے لوہے کے کمربند کو غور سے دیکھا تو سمجھ گئی۔ یہ دراصل اسے بداخلاقی سے باز رکھنے کے لئے ہی پہنایا گیا ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ بولی: " آپ کو مجھ پر اعتماد نہیں ہے نا! اسی لئے آپ نے ایسا کیا ہے۔ لیکن میں تو آپ سے بہت محبت کرتی ہوں۔ کبھی آپ کو شکایت کا موقع ملا؟”

سوداگر نے جواب دیا ۔۔۔ " میرے دل میں تمہاری طرف سے کوئی شبہ نہیں ہے لیکن چونکہ زمانہ بہت خراب ہے اور میں مردوں کی ذات سے بخوبی واقف ہوں۔ وہ  کمزور اور بے سہارا عورتوں کی تاک میں ہمیشہ لگے رہتے ہیں، اسی خیال سے میں نے تمہیں محفوظ کر دیا ہے۔ اب کوئی بھی شخص تمہاری عصمت نہیں لوٹ سکے گا۔”

یہ کہہ کر سوداگر تو اپنے سفر پر روانہ ہو گیا لیکن اس کی بیوی لوہے کے کمربند کی وجہ سے سخت پریشانی محسوس کرنے لگی۔ جو جسمانی کم تھی ذہنی زیادہ۔کمربند کی وجہ سے وہ خود کو ایک قیدی سمجھنے لگی۔ اٹھتے بیٹھتے اسے کمر کے گرد کسے ہوئے لوہے کے کمربند کا شدید احساس ہوتا تھا۔ اسی کمر بند کی وجہ سے اسے دوسرے مردوں کا خیال زیادہ آنے لگا تھا جن سے بچانے کے لئے اس کے شوہر نے یہ انوکھا طریقہ اپنایا تھا۔ وہ اس کی غلام تو نہیں تھی لیکن اس کی زندگی غلاموں سے بھی بدتر ہو گئی۔ یہ سب اس کے بے پناہ حسن کی وجہ سے ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اتنی حسین نہ ہوتی تو اس کے ساتھ اس قسم کا ظالمانہ سلوک بھی ہرگز نہ کیا جاتا۔ اپنے شوہر کے ظلم کو یاد کر کر کے اور اپنے حسن کو آئینے میں دیکھ دیکھ کر وہ دُکھی ہو جاتی۔رونے بھی لگ جاتی تھی۔ لیکن وہ کر ہی کیا سکتی تھی۔ اب تو ہر طرح سے بے بس تھی۔ بند کھڑکیوں اور دروازوں کے باہر گلی میں سے اسے کتنے مردوں کی سیٹیاں سنائی دیتی تھیں۔ بعض لوگ تو اس کا نام تک پکارتے ہوئے یا شعر  پڑھتے ہوئے گلی میں سے گزرتے تھے۔ شعر اس کے بے پناہ حسن کی تعریف میں یا خود ان کی اپنی اندرونی کیفیتوں کے غماز ہوتے۔ لیکن وہ کبھی دروازہ یا کھڑی کھول کر باہر نہیں جھانکتی تھی کیونکہ وہ اپنے شوہر سے بہت محبت کرتی تھی۔ اس کے ملازم اس قسم کی آوازیں سن کر ہمیشہ چوکنے ہو جاتے تھے اور وہ اپنے دل میں کبھی کبھی پیدا ہو جانے والی اس خواہش کو بڑی سختی سے دبا لیتی کہ وہ کسی روز تو کھڑکی کو ذرا سا کھول کر اپنے عاشقوں کی شکل ہی دیکھ لے!

اس کے کانوں میں جو سیٹیاں گونجتی تھیں اور عاشقانہ اشعار پڑھنے کی جو آوازیں آتی تھیں اُن کی وجہ سے اس کے ذہن میں عجیب عجیب سی تصویریں اُبھرا کرتیں۔ ایسا نہ چاہتی تب بھی شکیل اور بہادر مردوں کی تصویریں اپنے آپ اس کی آنکھوں کے سامنے آ جاتیں۔ لیکن اس میں اسے ایک دبی دبی آسودگی بھی نصیب ہوتی تھی۔ اس کے عاشقوں میں ایک بھی ایسا بہادر آدمی نہیں ہے جو مکان کی اونچی دیوار پھاند کر اسے اغوا کر کے لے جاتا!

رفتہ رفتہ اغوا کئے جانے کے تصورِ محض سے ہی اسے تسکین ملنے لگی۔ اسے لگتا وہ ایک اجنبی مرد کے آگے اس کے گھوڑے پر سوار ہے۔ وہ گھوڑے کو سرپٹ بھگائے لیے جا رہا ہے اور اسے گھر سے سینکڑوں کوس دور ایک گھنے جنگل میں لے جاتا ہے جہاں سے اسے کوئی بھی واپس نہیں لے جا سکے گا۔ اب وہ اپنے شکی مزاج و ظالم شوہر کے پنجے سے ہمیشہ کے لئے آزاد ہو چکی ہے لیکن جب وہ اپنے اجنبی عاشق کے ساتھ جسمانی تعلق کی بات سوچنے بیٹھتی تو اس کے آنسو نکل پڑتے ۔ کمر میں لوہے کے کمربند کی وجہ سے تو وہ کسی بھی مرد کے کام کی نہیں ہے۔ جب تک اس کمر بند کو کھول نہ دیا جائے ۔لیکن اس کی چابی تو اس کے شوہر کے پاس تھی۔

ایک مرتبہ سوداگر کی بیوی کے کانوں میں ایک ایسے قوال کے گانے کی آواز آئی جسے سنتے ہی وہ مضطرب ہو اُٹھی۔ اس سے رہا نہ گیا۔ اس نے اپنے قیمتی زیورات اپنے نوکروں کو انعام کے طور پر دے دیے اور ان سے کہا۔۔۔ ’’ اس قوال کو تھوڑی سی دیر کے لیے میرے پاس لے آؤ۔ اس کا گانا سنوں گی۔ اس کی آواز میں بڑا سوز ہے، جس نے میرے دل میں میرے پیارے شوہر کی یاد تازہ کر دی ہے جو ایک مدت سے مجھ سے ہزاروں کوس دور پردیس میں ہے اور میں اس کے فراق میں دن رات تڑپا کرتی ہوں۔”

ملازم فوراً اس قوال کو بلا کر لے آئے۔ وہ اس علاقے کا مشہور و معروف قوال تھا۔ لوگ اس کی قوالی سُن کر وجد میں آ جاتے تھے۔ وہ مردانہ حسن و شکوہ کا ایک بے مثال نمونہ تھا، اونچا قد، مضبوط جسم، لمبے لمبے بازو، سانولا رنگ اور لہراتے ہوئے گھنگھریالے بال۔ اس کی آنکھوں میں غضب کی کشش تھی۔ محبت کی ایک عجیب سے شدت بھی۔ اس نے بھی سوداگر کی بیوی کے حسن کے چرچے سن رکھے تھے اور غائبانہ طور پر اس سے محبت بھی کرنے لگا تھا۔ اب جب وہ اس حسینہ کے سامنے اچانک پہنچا دیا گیا تو متعجب سا رہ گیا۔ پہلے تو اسے اعتبار ہی نہ ہوا یہ حقیقت ہو سکتی ہے۔ اس لیے اس نے اپنی آنکھیں بار بار مَلیں۔ لیکن جب اسے یقین ہو گیا کہ وہ سچ مچ اپنے دل کی ملکہ کے حضور میں کھڑا ہے تو پہلے تو وہ دل ہی دل میں اپنی خوش نصیبی پر مالکِ دوجہاں کا شکر بجا لایا پھر سر جھکا کر بولا۔۔۔ " اے حسینۂ عالم! میں آپ کی کون سی خدمت سر انجام دے سکتا ہوں؟”

سوداگر کی بیوی  قوال کے مردانہ حسن پر پہلی ہی نظر میں فریفتہ ہو گئی۔ لیکن اپنے ملازموں کی موجودگی میں اس نے اپنی کیفیت کا اظہار کرنا مناسب نہ سمجھا۔ صرف اتنا ہی کہنے پر اکتفا کی۔۔۔” نامور قوال! میں اپنے پیارے شوہر کی جدائی میں ٹرپ رہی ہوں جس کے لوٹنے کی ابھی تین برس تک کوئی توقع نہیں ہے۔ تم مجھے کوئی ایسی غزل سناؤ جس سے میرے دل کو راحت نصیب ہو۔ مجھے یقین ہے تمہاری پُرسوز آواز میرے زخمِ دل پر مرہم کا کام کرے گی۔”

یہ کہتے کہتے وہ قوال کی آنکھوں میں ڈوب سی گئی لیکن پھر فوراً سنبھل بھی گئی اور سر جھکا کر بیٹھ گئی۔ قوال اس کی حقیقی کیفیت کچھ کچھ بھانپ گیا۔ سمجھنے لگا کہیں وہ اسی کی محبت میں گرفتار تو نہیں ہے؟ ممکن ہے اپنے ملازموں کی موجودگی کے سبب سے اس کا اظہار نہ کر سکتی ہو! بہرحال اس کی خواہش کے احترام کے لیے اس نے باہر کھڑے ہوئے اپنے رفیقوں کو بھی اندر بلوا لیا۔ ساز بجنے لگے۔ ڈھول پر تھاپ پڑنے لگی اور سوداگر کی عالیشان عمارت  گونج اٹھی۔

قوال نے اس کے سامنے اپنے ایک پسندیدہ شاعر کی ایک منتخب غزل چھیڑ دی جس کے ذریعے وہ اپنی اندرونی کیفیت کا اظہار بھی کر سکتا تھا:

زمیں والوں پہ یہ عشق ستم، اے آسماں! کب تک
بہت نازاں ہے تو جس پر وہ دورِ کامراں کب تک

کہاں تک باغباں کا ناز اٹھائیں گے چمن والے
رہے گا گلشن امید بربادِ خزاں کب تک

اس کی آواز میں ایک عجیب سا جادو تھا جس کا اسے خود بھی احساس تھا۔ آ ج تک جہاں بھی اس نے قوالی پیش کی تھی، وہ ہمیشہ کامیاب و کامراں رہا تھا۔ اب تو اس نے اپنی آواز میں ایک نیا ہی جذبہ شامل کر لیا تھا۔ وہ اپنی محبوبہ کے سامنے بیٹھا تھا۔ اسے یقین تھا، یہاں بھی وہ کامیاب رہے گا۔ یہ حسینہ اپنا دل ہار کر اس کے قدموں میں رکھ دینے کے لیے ضرور مجبور ہو جائے گی۔ جب وہ اشعار گا رہا تھا، اس کی آنکھیں جذبات کی شدت سے لال ہو گئی تھیں۔ اُدھر سوداگر کی بیوی کی آنکھیں بھی بار بار نم ناک ہو جاتی تھیں لیکن دیکھنے والے یہی سمجھ رہے تھے کہ وہ اپنے شوہر کو ہی یاد کر کے آنسو بہا رہی ہے۔ جب قوال نے اگلا شعر پڑھا تو سوداگر کی بیوی کی کیفیت اور بھی غیر ہونے لگی:

بجھانے سے کہیں بجھنے کی ہے یہ آتشِ الفت
ارے اوہ دیدۂ گریاں! یہ سعیِ رائیگاں کب تک

(حفیظ بنارسی)

قوال نے پہلے مصرعے کو اتنی مرتبہ دہرایا، اس قدر مستی سے دہرایا کہ ہر مرتبہ اس سے ایک نیا ہی تاثر ابھرتا چلا گیا۔ ملازموں کو اب یہ خدشہ ستانے لگا کہ ان کی مالکن کہیں بے ہوش نہ ہو جائے۔ اس لئے انھوں نے قوال کو قوالی بند کر کے چلے جانے کا اشارہ کر دیا لیکن سوداگر کی بیوی نے قوال کو جانے سے روک لیا۔ بولی۔۔۔” میں تم سے تنہائی میں کچھ باتیں کرنا چاہتی ہوں۔”

قوال نے اپنے سارے ساتھیوں کو واپس بھیج دیا اور خود سوداگر کی بیوی کے قدموں میں جھک کر پھر سے بیٹھ گیا۔ بولا۔۔۔”فرمایئے، میں حاضرِ خدمت ہوں۔”

سوداگر کی بیوی کی آنکھیں ابھی تک آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔ وہ کتنی دیر تک تو کچھ کہہ ہی نہ سکی۔ آخر تھرتھراتی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔” تمہاری آواز میں اس قدر سوز کیوں ہے، قوال! کیا تم کسی سے محبت کرتے ہو؟”

قوال نے جواب دیا۔۔۔” میرے سر سے میرے والدین کا سایہ بچپن سے ہی اٹھ گیا تھا۔ میں بہت چھوٹی عمر سے جگہ جگہ گھوم رہا ہوں۔ موسیقی سے مجھے خاص رغبت ہے۔ اسی میں مجھے بڑی تسکین ملتی ہے۔ اب سے پہلے میں نے کسی سے محبت کی ہے یا نہیں، اس کے متعلق میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہ صحیح ہے کہ میں نے عورتیں بے شمار دیکھی ہیں۔ حسین سے حسین ترین عورتیں، بادشاہوں، امیروں اور سرداروں کی محفلوں میں ہمیشہ شریک ہوتا رہا ہوں۔ وہاں عورتوں کی کمی کبھی نہیں رہی ہے لیکن میں سچے دل سے اس بات کا اقرار کر سکتا ہوں کہ حقیقی محبت کا آغاز مجھے آپ کا غائبانہ ذکر سن کرہی ہونے لگا تھا۔ آج تو مجھے یوں محسوس ہوا۔‘‘

اس سے آگے سوداگر کی بیوی نے اسے نہ بولنے دیا، کہا۔۔۔” بس، بس میں سمجھ گئی۔ تم کیا کہنا چاہتے ہو؟ لیکن آئندہ ایسی بات زبان پر کبھی مت لانا۔ سمجھ لو میں اپنے شوہر کی پاک دامن بیوی ہوں۔ اس کے علاوہ میں کسی بھی دوسرے کا خیال اپنے دل میں نہیں لاسکتی۔ لیکن تمہارے جذبات کی میں اس حد تک ضرور قدر کروں گی کہ تم کبھی کبھی یہاں آ کر مجھے قوالی سنا جایا کرو۔ کیونکہ اس سے تمہارے جذبات کو تسکین حاصل ہو گی۔ ایسی تسکین  مجھے بھی یقیناً حاصل ہو گی کیونکہ تمہارے گانے کی وجہ سے میرے دل میں میرے شوہر کی یاد تازہ رہے گی۔ جب میرا شوہر واپس آ جائے گا اور اسے یہ معلوم ہو گا کہ اس کی غیر حاضری میں تم نے اپنی موسیقی کے ذریعے میرے دل میں اس کی محبت کو ہمیشہ جگائے رکھا ہے تو وہ بہت خوش ہو گا۔ بہت ممکن ہے اس خدمت کے عوض وہ تمہیں انعامات و اکرامات سے لاد بھی دے۔”

سوداگر کے ملازم جو ان کی باتیں پردوں کے پیچھے سے سن رہے تھے، اب پوری طرح مطمئن ہو گئے کہ ان کی مالکن اپنے شوہر کی محبت میں مکمل طور پر سرشار ہے۔ اس سے بے وفائی کی توقع رکھنا اب بے کار ہو گا۔ جب قوال نے سوداگر کی بیوی کی پیش کش قبول کر لی تو پھر اس کے آنے جانے پر کسی قسم کی پابندی نہ لگائی گئی۔ قوال وہاں قریب قریب روز ہی آنے لگا اور بڑی آزادی سے سوداگر کی بیوی سے تنہائی میں بھی مل لیتا تھا۔

انھیں اس طرح ایک دوسرے سے ملتے ہوئے ایک سال کا عرصہ گزر گیا۔ لیکن دونوں نے ایک دوسرے کو ابھی  چھوا تک نہیں تھا۔ قوال اسی غم میں دن بدن کمزور ہوتا گیا۔ اس کے چہرے کی تازگی رخصت ہونے لگی۔ لگتا تھا اسے رات کو کبھی نیند نہیں آتی ہے۔سوداگر کی بیوی یہ دیکھ کر فکر مند بھی رہتی تھی لیکن وہ قوال کو ابھی تک اپنے سامنے صاف اظہارِ محبت کرنے کی اجازت نہیں دے سکی تھی۔ وہ جانتی تھی آگے بڑھنے کا نتیجہ کیا ہو گا! جب قوال کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ اس کے جسم پر پہنے ہوئے بھاری ریشمیں لبادے کے نیچے اس کی کمر کے نچلے حصے پر ایک مضبوط لوہے کا  کمر بند لگا ہوا ہے تو وہ کتنا مایوس ہو اُٹھے گا! ہو سکتا ہے اس کے لیے یہ صدمہ ناقابلِ برداشت ہو جائے اور وہ خود کشی کر بیٹھے۔ اسی لیے وہ اسے ابھی تک اپنے جسم سے دور ہی رکھتی آ رہی تھی۔

ایک دن جب قوال اس کے ساتھ حسبِ معمول تنہا تھا اور اس کے سامنے اپنے عشق کا اظہار کر رہا تھا تو وہ اچانک جذبات کے ہاتھوں بالکل بے قابو ہو گیا۔ اس کے قدموں سے لپٹ کر زار زار رونے لگا۔ کہنے لگا۔۔۔” اب میرے لئے زندہ رہنا نا ممکن ہو گیا ہے۔ میں آپ کو اس قید خانے سے نکال کر لے جانے کے لیے تیار ہوں۔ بس آپ کے اشارے کی دیر ہے۔ اگر آپ نے انکار کر دیا تو ہو سکتا ہے میں زبردستی اٹھا لے جانے کی بھی گستاخی کر بیٹھوں!”

اغوا کیے جانے کا ذکر سن کر سوداگر کی بیوی اپنے حسین ترین خوابوں میں کھو گئی۔ اس قسم کے خواب اس نے کئی مرتبہ سوتے جاگتے ہوئے دیکھے تھے۔ اس نے سمجھ لیا  اس کے خوابوں کے حقیقت میں بدل جانے کی گھڑی آ پہنچی ہے۔ لیکن اسے فوراً ہی لوہے کے کمر بند کا خیال آگیا۔ اس کمر بند سے چھٹکارا پانا تو کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے۔

قوال کو جب اپنی درخواست کا کوئی جواب نہ ملا تو وہ اور بھی غمگین ہو گیا۔ بے خود سا ہو کر ایک نئی غزل گانے پر مجبور ہو گیا:

اب سحر کا نہ انتظار کرو
دامنِ شب کو تار تار کرو

زندگی رنج و غم کا نام سہی
مل گئی ہے تو اس سے پیار کرو

موسیقی بڑوں بڑوں کی کمزوری ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تو یہ اچانک ایسا سیلاب بن جاتی ہے جس کے سامنے کئی ثابت قدم بھی ڈگمگا کر بہہ جاتے ہیں۔ قوال سمجھ گیا تھا، اپنی محبوبہ کو وہ اب اپنے فن سے ہی شکست دے سکے گا۔ اس لیے اس نے پوری طرح اپنے اندر ڈوب کر ایک لے نکالی:

ہم سے خوئے وفا نہ چھوٹے گی
نہ چھوٹے گی!
نہ چھوٹے گی!
خوئے وفا!
خوئے وفا!
ہم سے!
ہم سے!
ہم سے خوئے وفا نہ چھوٹے گی
تم کوئی جبر اختیار کرو
اور چمکاؤ  آئینہ رخ کا
آئینہ رخ کا!
آئینہ ۔۔۔ رخ کا!
آئینہ ۔۔۔ رخ کا!
اور چمکاؤ  آئینہ رخ کا
زلف کو اور تابدار کرو

(حفیظ بنارسی)

گاتے گاتے اسے کافی دیر ہو گئی۔ وہ بے حال ہو گیا۔ سوداگر کی بیوی کی بھی یہی حالت تھی۔ آخر اس نے قوال کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر بولی۔۔۔”میں اعتراف کرتی ہوں کہ میں بھی تم سے محبت کرتی ہوں۔ زندگی بھر کرتی رہوں گی۔ لیکن میں کسی وجہ سے مجبور بھی ہوں۔ تم نہیں جانتے، اس گھر کو چھوڑ کر بھی میں اپنا آپ تمہارے حوالے نہیں کر سکوں گی۔”

اس کے بعد اس نے قوال کو لوہے کے کمر بند والی بات بھی بتا دی جس کی چابی اس کا شوہر اپنے ساتھ لے کر گیا ہوا تھا۔ یہ سن کر قوال ہکا بکا سا رہ گیا۔ اسے یقین نہ آیا جو کچھ اس کی محبوبہ نے کہا تھا۔ اس نے لباس کے اوپر سے نیچے کے کمر بند کو چھوا تب ہی اسے یقین ہو سکا لیکن کئی لمحوں تک وہ کھڑا سوچتا رہا۔ اس کے چہرے پر کئی لہریں آئیں اور گئیں۔ آخر اس نے زبان اس طرح کھولی۔۔۔” میں اس کمربند کو کاٹ کر پھینک دوں گا۔ ا بھی بازار جا کر اتنے تیز اوزار لے کر آتا ہوں جو پلک جھپکتے میں اس غیر انسانی کمر بند کو کاٹ دیں گے۔”

لیکن سوداگر کی بیوی کو غصہ آگیا، بولی۔۔۔” یہ کہتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آئی! کیا تم چاہتے ہو جب تم  لوہے کے کمربند کو کاٹ رہے ہو گے تو میں تمہارے سامنے کپڑے اتار کر ننگی کھڑی رہوں گی؟”

قوال نے اپنی غلطی کے لئے فوراً معذرت چاہی لیکن ساتھ ہی اس نے ایک اور تجویز بھی پیش کر دی۔۔۔”یہ کام میں اپنے ایک لوہار دوست کے بھی سپرد کر سکتا ہوں۔ اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دوں گا تاکہ وہ تمہاری حسین کمر پر نگاہ تک نہ ڈال سکے لیکن وہ اپنے کام میں اتنا ماہر ہے کہ آنکھیں بندھی ہوئی ہونے پر بھی اپنا کام حسبِ خواہش انجام دے لے گا۔”

سوداگر کی بیوی نے یہ بات بھی منظور نہ کی اور قوال سے کہا۔۔۔”جاؤ  جاؤ ، مجھے میرے حال پر ہی چھوڑ دو۔‘‘

قوال نے وہاں سے جاتے جاتے ایک بات اور سوچ لی۔ پلٹ کر کہا ۔۔۔” حسین عورتوں کا سب سے بڑا دشمن ان کا موٹاپا ہوتا ہے۔ اگر آپ اپنا وزن کم کرنا شروع کر دیں تو آپ کے جسم کی کشش بھی برقرار رہے گی اور اس کمربند سے بھی آپ کو نجات حاصل ہو جائے گی۔”

سوداگر کی بیوی اچھّی اچھّی مرغن غذاؤں کی بڑی دلدادہ تھی۔ اس قسم کی تجویز کو وہ کسی صورت میں بھی قبول نہیں کر سکتی تھی۔ چمک کر بولی۔۔۔” اس کا مطلب یہ ہو گا تمہاری خاطر میں خود کو بھوکا بھی ماروں؟ کھانا پینا چھوڑ دوں! لیکن بھوکا پیاسا رہنے سے بیمار پڑ جانے کا بھی تو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے! اس میں تم میری طرف نظر اٹھا کر بھی کیوں دیکھو گے! جاؤ جاؤ، تمہاری ایک بھی تجویز معقول نہیں ہے۔”

قوال کا دل بھی ٹوٹ گیا۔ بہت افسردہ ہو کر اب وہ وہاں سے جانے والا تھا کہ پلٹ کر پھر آ گیا اور بولا۔۔۔” خدا کے لئے میری ایک تجویز پر   ضرور غور فرما لیجئے ۔ کیا آپ مجھے اس بات کی اجازت دے سکتی ہیں کہ میں آپ کے سامنے مسلسل کئی روز تک گاتا رہوں؟ مجھے یقین ہے اپنی موسیقی کی بدولت میں آپ کے بدن میں ایک ایسی سنسنی پیدا کر دینے میں کامیاب ہو جاؤں گا جس سے آپ کا کمر بند اپنے ہی کمر سے نیچے پھسل جائے گا۔ انتہائی ہیجان کے کسی بھی لمحے میں ایسا ہو جانا ممکن ہے۔ آپ کو پتہ بھی اس وقت لگے گا جب یہ کمر بند سرک کر آ پ کے قدموں میں آگرے گا۔”

سوداگر کی بیوی نے اس کی نئی تجویز کو بھی ہنسی میں اڑا دیا۔ کہنے لگی۔۔۔” تم پہلے بھی تو کئی بار گانا سنا چکے ہو۔ کبھی ایسا ہو سکا؟ میں جانتی ہوں تم مجھے صرف افسردہ بنا سکتے ہو۔ کسی اور بات میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔‘‘

اب وہ وہاں سے بالکل ہی مایوس ہو کر چل دیا۔ پھر کئی مہینوں تک پلٹ کر سوداگر کی بیوی کو اپنی صورت نہ دکھائی ۔لیکن سوداگر کی بیوی کو اپنے ملازموں کے ذریعے اس کے بارے میں خبریں ملتی رہیں کہ وہ گلی کوچوں میں مارا مارا پھرتا رہتا ہے۔ اب اسے اپنے تن بدن کا ہوش بھی نہیں رہتا ہے۔ کسی کی فرمائش پر گانا بھی نہیں گاتا ہے۔ بس ایک خاموشی ہی اس نے اختیار کر رکھی ہے۔لوگوں میں یہ بھی مشہور ہو گیا ہے کہ قوال سوداگر کی بیوی کے عشق میں مبتلا ہے۔ اور وہ دن دور نہیں جب وہ بالکل پاگل ہو جائے گا۔

آخری خبرسوداگر کی بیوی کے لئے خاصی پریشان کن تھی۔ کیونکہ اس سے اس کی بدنامی ہو رہی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ وہ بھی اس کی محبت سے متاثر ہونے لگی۔ اسے احساس ہو گیا محبت کے میدان میں قوال کی قربانی کہیں زیادہ ہے۔ وہی اس سے سچا عشق کر رہا ہے۔ اگر مرگیا تو لوگ ہمیشہ قوال کے ہی چرچے کیا کریں گے۔ لیکن اسے کبھی اچھے نام سے یاد نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ قوال کی موت کا سبب وہی بنے گی۔ اس معاملے میں تھوڑی سی قربانی وہ بھی دے سکے تو اس کا نام بھی امر ہو سکتا ہے۔

سوداگر کی بیوی نے فاقے کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔ شروع شروع میں تو اس نے کھانے پینے کی مقدار میں کمی کی پھر غذائیت سے بھرپور اور لذیذ چیزیں ترک کر دیں۔ جس سے وہ جلد ہی پتلی اور پُر کشش ہو گئی۔ آئینے کے سامنے جا کر وہ اپنے آپ کو دیکھتی تو خوشی سے پھولی نہ سماتی۔ لیکن دن بدن کمزور ہو کر مر جانے کا تصور دل سے نکال دیتی۔اپنی خوراک میں وہ اس سے زیادہ کمی واقع نہیں ہونے دے گی۔

کبھی کبھی اس کا جی وہ ساری میٹھی اور لذیذ چیزیں کھانے کے لیے مچل اٹھتا جو اسے ہمیشہ ہمیشہ مرغوب رہ چکی تھیں۔ وہ چیزیں اس کے خوابوں میں بھی آتی تھیں۔ایک روز وہ اچانک اچھے اچھے ذائقوں کو یاد کر کے روپڑی۔ اس نے اسی دم اپنے محبوب کا خیال دل سے نکال پھینکا اور اپنے ملازموں کو حکم دے دیا کہ وہ اس کے سامنے بہترین قسم کے سارے کھانے فوراً حاضر کریں!

پہلے تو نوکر بہت حیران ہوئے. کیونکہ اس نے ایک عرصے سے عمدہ قسم کے کھانوں کی طرف نگاہ تک اٹھا کر نہیں دیکھا تھا۔ لیکن وہ فوراً ہی دودھ، گھی، شہد اور چینی وغیرہ سے بنائے ہوئے قسم قسم کے لذیذ ترین کھانے لے کر حاضر ہو گئے جنھیں دیکھتے ہی وہ ان پر ٹوٹ سی پڑی۔ کھاتے کھاتے دل ہی دل میں یہ عہد بھی کرتی گئی کہ اب وہ کبھی بھوکا رہنے کی کوشش نہیں کرے گی۔ زندگی کی بہترین مسرت ایسی ہی لذیذ غذاؤں کے کھانے میں ہے۔

کچھ ہی دنوں میں اس کے جسم کے قوسیں پھر سے بھر گئیں جن پر سے خوراک میں کمی کر دینے کی وجہ سے گوشت غائب ہونے لگ گیا تھا۔ وہ اس اعتقاد کی قائل ہو گئی کہ کسی سے عشق کرنے کے لئے بھوکا رہنا قطعاً  ضروری نہیں ہے۔ قوال بھی اب شہر چھوڑ کر جا چکا تھا۔ پتہ نہیں وہ زندہ بھی تھا یا نہیں!

ایک روز اچانک وہی قوال پھر اس کے دروازے پر حاضر ہو گیا۔ اس نے ملاقات کی اجازت چاہی۔ سوداگر کی بیوی نے اسے ایک مدت سے نہیں دیکھا تھا۔ اس نے قوال کو فوراً اندر بلوایا۔ قوال نے آتے ہی اس کے سامنے ایک نئی تجویز پیش کر دی۔۔۔” میں آپ کی خاطر دور دراز کے علاقوں میں بھٹکتا پھرا  ہوں۔ کسی جڑی بوٹی کی تلاش میں تھا جس کے بارے میں سن رکھا تھا کہ اس کے استعمال کے ساتھ ساتھ لذیذ کھانوں سے محروم ہونا ضروری نہیں ہے،لیکن اس سے بدن کی فالتو چربی بھی کم ہوتی جاتی ہے۔”

سوداگر کی بیوی اس وقت بڑے اچھے موڈ میں تھی۔اپنے سامنے شکر چڑھے باداموں کی ایک پلیٹ بھرے ہوئے بیٹھی تھی۔ایک ایک بادام اٹھا کر منہ میں ڈالتی اور دانتوں کے درمیان آہستہ آہستہ پیستی اور مسکراتی جاتی تھی۔۔

” اچھا، تو پھر تم نے وہ جڑی بوٹی حاصل کر لی؟”

قوال نے جواب دیا۔۔۔ " اس جڑی بوٹی کا صحیح پتہ ایک بڑھیا کو تھا۔ اسے بھی میں نے دور افتادہ ایک گاؤں سے ڈھونڈ نکالا۔ وہاں وہ جادوگرنی کے نام سے مشہور ہے۔ اس نے بے شمار امیر و کبیر گھرانوں کی ایسی بہو بیٹیوں کا بڑی کامیابی سے علاج کیا ہے جو اچھی خوراکیں کھانے کی وجہ سے بہت فربہ ہو چکی تھیں۔ اور اس طرح اپنی دل کشی سے محروم ہو جانے پر افسردہ بھی رہتی تھیں۔ اس بڑھیا کی دی ہوئی دوا سے انھیں اپنے بدن کی خوب صورتی پھر سے واپس مل چکی ہے۔ ان کی صحت پر بھی برا اثر نہیں پڑا ہے۔”

یہ کہہ کر قوال نے جیب میں سے ایک چھوٹی سی ڈبیہ نکالی اور کہا ۔۔۔” اسے آپ چند روز تک بلاناغہ کھائیے، کھانے پینے کا کوئی پرہیز نہیں ہے۔”

 سوداگر کی بیوی نے خوش ہو کر وہ ڈبیہ لے لی۔تھوڑی سی دوا اس نے اسی وقت چاٹ لی۔اس کے بعد دن میں کئی کئی مرتبہ اسے استعمال کرنے لگی۔ دوا نے واقعی اپنا اثر دکھا دیا۔ وہ کچھ ہی روز میں پتلی ہو گئی۔ اس کے بدن میں جگہ جگہ بھرا ہوا پلپلا گوشت غائب ہو گیا۔ایک دن وہ قوال کے ساتھ اپنے مکان کے پائیں باغ میں تالاب کے کنارے کنارے ٹہل رہی تھی کہ اچانک اس کی کمر کے ساتھ چپکا ہوا لوہے کا کمر بند سرک کر نیچے گر پڑا۔ پاؤں کے پاس گرے ہوئے کمر بند کو اس نے حیرت سے دیکھا پھر مسرت کے ایک عجیب سے جوش میں مبتلا ہو کراس نے کمر بند کو زور سے ٹھوکر ماری، کمر بند ایک پیڑ کے ساتھ جا ٹکرایا اور اس نے خود کو قوال کی آغوش میں گرا دیا۔

لیکن اسی وقت کسی نے دروازے پر زنجیر کھٹکھٹائی۔ اس کے ملازم کسی غیر ملکی شہری کی آمد کی خبر لے کر آئے۔ وہ آدمی اس کے شوہر کے بارے میں کوئی خبر لے کر آیا تھا۔ اس نے گھبرا کر اس آدمی کو بلوا بھیجا۔ پردے کھنچوا دیے گئے۔ اس نے پردے کے عقب سے اس غیر ملکی شخص کو سر جھکا کر کھڑے ہوئے دیکھا جو اپنے ساتھ کئی صندوق بھی اٹھوا کر لے آیا تھا۔ اس نے بتایا۔۔۔” یہ سارے صندوق ہیروں اور جواہرات سے بھرے ہوئے ہیں۔ انھیں آپ کی خدمت میں پہنچا دینے کا حکم آپ کے شوہر نے ہی مجھے دیا تھا۔ اب ان کا انتقال ہو چکا ہے۔ ایک زہریلے سانپ نے انہیں ڈس لیا تھا۔ آپ کا نام مرتے دم تک ان کی زبان پر رہا۔ مرنے سے  پہلے انہوں نے ایک اور چیز بھی آپ تک پہنچانے کی ہدایت کی تھی۔ یہ ایک چابی ہے۔‘‘

سوداگر کی بیوی نے پردے کے پیچھے سے ہاتھ بڑھا کر وہ چابی لے لی۔ یہ وہی چابی تھی جس کے ساتھ ایک پرچہ بھی بندھا ہوا تھا۔ جس پر لکھا تھا۔۔۔” میری پیاری بیوی!اب تم آزاد ہو۔خدا حافظ!”

وہ چابی کو سینے کے ساتھ لگا کر زور زور سے رونے لگی۔ قوال نے جو اس خبر کو سن کر بہت خوش ہو اٹھا تھا، اسے سمجھایا۔۔۔” اب تو آپ مکمل طور پر آزاد ہیں۔ کوئی خطرہ نہیں رہ گیا۔ اب ہم شادی کر کے ہمیشہ ساتھ رہ سکتے ہیں۔”

لیکن اس کی بات سن کر سوداگر کی بیوی کو اچانک غصہ آگیا۔ چلا کر بولی۔۔۔” نکل جاؤ یہاں سے۔ اب کبھی مت آنا۔ میں تمہاری صورت تک  نہیں دیکھنا چاہتی۔ اپنے پیارے شوہر کو میں کبھی نہیں بھلا سکو ں گی۔ بقیہ عمر اسی کی یاد میں گزار دوں گی۔ یہ میرا ایک مقدس فریضہ ہو گا۔”

یہ کہہ کر روتے روتے اس نے لوہے کے کمربند کو پھر سے اٹھا لیا۔ جسے تھوڑی دیر پہلے اس نے ٹھوکر مار کر دور پھینک دیا تھا۔ اس میں چابی لگا کر اسے کھولا۔ اور اپنی کمر کے گرد پہلے سے بھی زیادہ سختی سے کس لیا۔ اور چابی تالاب کے اندر پھینک دی۔

قوال وہاں سے دل برداشتہ ہو چل دیا۔ اس حسینہ کو حاصل کرنے کی اب اس کے دل میں کوئی امید نہیں رہ گئی تھی۔ کسی دور دراز کے شہر میں جا کر رہنے لگا۔ وہاں اس نے کئی سال گزار دیے۔ لیکن محبوبہ کی یاد اس کے دل سے کبھی نہ نکل سکی۔ وہ ابھی تک اس کے دل میں بستی تھی۔ اور اسے ہمیشہ بے قرار رکھتی تھی۔ ایک روز اس کا ایک شاگرد جو اسی سوداگر کی بیوی کے شہر میں رہتا تھا، اس سے ملنے کے لیے گیا تو قوال نے سب سے پہلے اپنی محبوبہ کے بارے میں سوال کیا۔۔۔” تمہیں سوداگر کی بیوی کا کچھ حال معلوم ہے؟‘‘

اس کے شاگرد نے اسے بتایا۔۔۔” استاد! کیا عرض کروں، وہ تو بڑی عجیب و غریب قسم کی عورت ہے۔ اس کے متعلق کئی قصے مشہور ہیں۔ میں نے تو اسے نہیں دیکھا لیکن جن لوگوں نے دیکھا ہے وہ کہتے ہیں وہ پہلے سے بہت زیادہ موٹی ہو گئی ہے۔ اور اس کی کمر میں کسی وجہ سے بہت شدید درد رہتا ہے لیکن اس کا  وہ علاج بھی نہیں کراتی۔ اگرچہ درد کی شدت سے ہمیشہ تڑپا کرتی ہے۔ لوگ یہاں تک بتاتے ہیں کبھی کبھی وہ تالاب کے کنارے جا بیٹھتی ہے۔ اس نے کئی بار تالاب کا سارا پانی خارج کرایا ہے اور تہہ میں جمی ہوئی مٹی کے ذرے ذرے کو اپنی نگرانی میں انگلیوں کے درمیان سلوا کر دیکھا ہے۔ پتہ نہیں  وہ کس چیز کی تلاش میں ہے! شاید کوئی بہت ہی قیمتی چیز ہو گی جو تالاب میں گر گئی تھی اور اب اسے نہیں مل رہی ہے!”

اس کے شاگرد نے کہا اور مغنی کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ ہنسے یا روئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افسانوی مجموعہ: گزرتے لمحوں کی چاپ
ناشر: مکتبہ دین و ادب، لکھنو
طباعت: تنویر پریس لکھنو
سنِ اشاعت: ۱۹۷۴ء

 

Related posts

Leave a Comment