رضوان احمد ۔۔۔کیفی اعظمی کی شعری کائنات

کیفی اعظمی کی شعری کائنات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کیفی اعظمی کے والد سید فتح حسین رضوی اعظم گڑھ کے مجوا میں زمیندار تھے۔ ان کا تعلق نجیب الطرفین سادات رضویہ کے راسخ العقیدہ شیعہ خانوادے سے تھا اور وہ اپنے بیٹے اطہر حسین رضوی کو ذاکر بنانا چاہتے تھے۔اسی لیے انہوں نے بیٹے کو لکھنئو کے مشہور مدرسہ سلطان المدارس میں داخل کرا دیا تھا۔ اس وقت کیفی کی عمر 15-16 سال کی ہو گی۔ شعر گوئی کا شوق انہیں پہلے سے ہی تھا۔ لکھنئو کی آب و ہوا اس شوق کو بہت راس آئی اور کیفی ذاکر بننے کے بجائے شاعر بن گئے۔ انہوں نے سلطان المدارس کے دقیا نوسی خیالات سے بھی بغاوت کر دی۔ سلطان المدارس کی تعلیم کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے پروفیسر قمر رئیس لکھتے ہیں:
” وہ عالم کے امتحان کی تیاری کر رہے تھے۔ مدرسے کے ایک مولوی نے نہج البلاغہ پڑھانے کے لیے انہیں سحری کے وقت گھر بلایا۔ وہ مولوی غالباً علت المشائخ کا شکار تھا، اطہر حسین پر اس نے جبر کرنا چاہا۔ وہ نکل بھاگے۔سلطان المدارس کے طلبا اور اساتذہ کو انہوں نے یہ واقعہ بتا دیا۔ سارے طلبا نے متحد ہو کر اس مولوی کو ہٹانے پر ہڑتال کر دی جو چھ مہینے تک جاری رہی۔ “
خود کیفی اعظمی سلطان المدارس کے بارے میں لکھتے ہیں ”سلطان المدارس جس دن قائم ہوا تھا اسی دن اس کے سارے قاعدے قانون بن گئے تھے۔ اس میں حالات کے مطابق پھر کسی ترمیم او رتنسیخ کو حرام سمجھا گیا۔ میں نے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر طالب علموں کی ایک انجمن بنائی اور انجمن کی طرف سے طالب علموں کے کچھ مطالبے مرتب کر کے سلطان المدارس کے ارباب حل و عقد کے سامنے پیش کیے۔ اس کا جواب ہم کو یہ ملا کہ انجمن ہماری مخالفت میں بنائی گئی ہے۔ اس کو تسلیم نہیں کرتے، اس لیے انجمن کو فوراً توڑ دو۔ لیکن انجمن بن چکی تھی۔ ہم کو کچھ ہی دنوں کے بعد اسٹرائک کرنی پڑی۔ ارباب اقتدار بوکھلا گئے۔ انہوں نے نوٹس دیا کہ سلطان المدارس بند کیا جاتا ہے اور بورڈنگ بھی بند کیا جاتا ہے۔ “
کیفی اور ان کے دوستوں نے ہوسٹل خالی کرنے سے انکار کر دیا۔ پولس بلائی گئی، لاٹھی چارج ہوا، کیفی اور ان کے ہم نشیں زخمی ہوئے۔ لیکن حوصلہ نہیں ہارے۔ ہڑتال چلتی رہی۔ہڑتال کے دوران کیفی احتجاجی نظمیں لکھتے رہے اور مدرسہ کے صدر دروازے پر منعقدہ جلسوں میں جوش و خروش کے ساتھ پڑھتے رہے۔ لیکن اس کے بعد کیفی نے مولوی بننے کا ارادہ ذہن سے نکا ل دیا۔ اس دوران ان کی ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں سے بھی ملاقات ہو گئی اور وہ باقاعدہ ترقی پسند تحریک میں شامل ہو گئے۔
 کیفی اعظمی بنیادی طور پر نظموں کے شاعر ہیں۔ انہوں نے بہت جو شیلی اور باغیانہ نظمیں لکھیں۔ وہ صرف شاعری تک محدود نہیں رہے بلکہ مزدور تحریک میں بھی شامل ہوئے۔ 1941ءمیں وہ کانپور پہنچے جو اس وقت شمالی ہندوستان میں مزدوروں کی تحریک کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ 1925میں ہی کانپور میں پہلی کمیونسٹ پارٹی کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ جس کی مجلس استقبالیہ کے صدر مولانا حسر ت موہانی تھے۔ یہاں آکر کیفی مزدوروں کی تحریک سے منسلک ہو گئے۔
کیفی اعظمی کا سرگرم تعلق کمیونسٹ پارٹی کی ایک اور اکائی ایپٹا ( انڈین پپلز تھیئٹر ) سے تھا کیوں کہ ان کی اداکاری سے بھی بہت گہری دل چسپی تھی۔ اس کے باعث مشاعروں میں کیفی کی ادائیگی کا ایک خاص انداز تھا۔ وہ بڑی ہی گھن گرج کے ساتھ اپنی نظمیں پڑھتے تھے اور لوگ سننے کے ساتھ ان کے چہرے کے اتار چڑھاؤ بھی دیکھتے تھے۔ انہوں نے کئی فلموں میں گانے اور مکالمے بھی لکھے۔ جن میں شاہد لطیف کی فلم ”بزدل“، چینتا نند کی ”حقیقت“ اور ایم ایس ستیو کی فلم ”گرم ہوا“ بھی ہے۔ کیفی نے چیتنا نند کی فلم ”ہیر رانجھا“ مکمل طور پر منظو م لکھی تھی، جس پر ان کو فلم فیئر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔
کیفی بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں اور انہوں نے بڑ ی پر اثر نظمیں کہی ہیں۔ جن میں آزاد اور پابند دونوں طرح کی نظمیں ہیں:

کلی کا روپ پھول کا نکھار لے کے آئی تھی
وہ آج کل خزانہٴ بہار لے کر آئی تھی
تمام رات جاگنے کے بعد چشم مست میں
یقیں کا رس، امید کا خمار لے کے آئی تھی
بسنتی ساڑی میں چھپا سا وہ جواں بدن
جواں بدن پہ ریشمی بہا رلے کے آئی تھی

ان کی نظموں کے بارے میں فیض احمد فیض لکھتے ہیں:
 ”بنیادی طور سے کیفی کی شاعری کا مزاج لڑکپن سے عاشقانہ ہے۔ لیکن غنائیہ شاعری کے سطحی تکلفات اور مصنوعی زیبائشوں سے کیفی نے بہت کم سروکار رکھا ہے۔“
کیفی اعظمی کے یہاں رومانی شاعری کی بہترین مثالیں ملتی ہیں۔ خاص طور سے’ آخرِ شب‘ کی بیشتر نظمیں رومانی ہیں:

کسی نے آج ایک انگڑائی لے کر
نظر میں ریشمی گرہیں لگا دیں
تلاطم ولولے ہیجان ارمان
وہی چنگاریاں پھر مسکرا دیں       

(تجدید)

چشم بددور یہ قد بالا
جیسے مشرق سے صبح نو کا ابھار
بیل جاتی ہوئی منڈیروں پر
دھوپ چڑھتی ہوئی سر دیوار

(نقش و نگار)

یا پھراس نظم کے چند اشعار

روح بے چین ہے اک دل کی اذیت کیا ہے
دل ہی شعلہ ہے تو یہ سوز محبت کیا ہے
وہ مجھے بھول گئی اس کی شکایت کیا ہے
رنج تو یہ ہے کہ رو رو کے بھلایا گیا

دل نے ایسے بھی کچھ افسانے سنائے ہو ں گے
اشک آنکھوں نے پیے اور نہ بہائے ہو ں گے
بند کمرے میں جو خط میرے جلائے ہوں گے
ایک ا ک حرف جبیں پر ابھر آیا ہو گا

یہ نظم عشق و محبت کے فضا میں کہی گئی خالص رومانی نظم ہے،جس میں دو دلوں کے آپسی لگاؤ کے بعد الگاؤ کا درد و کرب میں ڈوبا ہوا خوبصورت اظہار ہے۔ کیفی کی رومانی شاعری رجائیت سے بھر پو رہے۔ وہاں غموں کی کیفیت تو ملتی ہے لیکن مایوسی کہیں بھی نہیں:

 یہ بجھی سی شام یہ سہمی ہوئی پرچھائیاں
خونِ دل بھی اس فضا میں رنگ بھر سکتا نہیں
آ اتر آ  کانپتے ہونٹوں پہ اے مایوس آہ
سقفِ زنداں پر کوئی پرواز کر سکتا نہیں
جھلملائیں میری پلکوں پر مہ و خورشید تو کیا
اس اندھیرے گھر میں اک تارا اتر سکتا نہیں

(تلاش)

کیفی اعظمی نے غزلیں بھی کہیں ہیں لیکن غزلوں کا سرمایہ کم ہے اور ان کی غزل پر بھی نظموں کا رنگ طاری رہتا ہے کیوں کہ افکارکا تسلسل باقی رہتا ہے۔ویسے تو انہوں نے شاعری کی ابتدا ہی غزل سے کی تھی اور ان کی پہلی غزل یہ ہے۔ جس کے بارے میں وہ خود لکھتے ہیں:
” یہ میری زندگی کی پہلی غزل ہے جو میں نے 11برس کی عمر میں کہی تھی “

اتنا تو زندگی میں کسی کی خلل پڑے
ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے
جس طرح ہنس رہا ہوں میں پی پی کے اشکِ غم
یوں دوسرا ہنسے تو کلیجہ نکل پڑے
اک تم کہ تم کو فکرِ نشیب و فراز ہے
اک ہم کہ چل پڑے تو بہر حال چل پڑے
مدت کے بعد اس نے کی اک لطف کی نگاہ
جی خوش تو ہو گیا مگر آنسو نکل پڑے

ظاہر ہے کہ 11برس کے شاعری کی غزل ہے لیکن اس سے شاعر کی اٹھان کا پتہ چلتا ہے۔ لیکن اس غزل کو بیگم اختر نے اپنی آواز دے کر زندہ جاوید کر دیا۔ کیفی کی غزلوں میں بھی رومانی اشعار زیادہ ملتے ہیں، اس کا سبب شاید یہ بھی ہے کہ ترقی پسندی کا سر چشمہ رومانیت رہی ہے۔ لیکن کیفی اعظمی نے کانپور اور ممبئی دونوں شہروں کے قیام کے دوران خود کو مزدوروں کی تحریک سے جوڑا تھا اور نہ صرف غریبوں اور مزدوروں کے مسائل کا قریب سے مشاہدہ کیا تھا بلکہ خود بھی غربت اور محرومی کے دن گزارے تھے۔ کیوں کہ وہ کمیونسٹ پارٹی میں محض 45 روپے ماہوار کے ملازم تھے اور ان کی گزر بسر بے حد عسرت سے ہو تی تھی۔ ان حالات میں انہوں نے ان حقائق کو بھی اپنی غزلوں کا موضوع بنایا ہے:

نئی زمین نیا آسمان مل جائے
نئے بشر کو کہیں کچھ نشان مل جائے

خار و خس تو اٹھیں راستہ تو چلے
میں اگر تھک گیا قافلہ تو چلے
بیلچے لاؤ کھولو زمیں کی تہیں
میں کہاں دفن ہوں کچھ پتہ تو چلے
چاند سورج بزرگوں کے نقش قدم
خیر بجھنے دو ان کو ہوا تو چلے

جرم ہے تیری گلی سے سر جھکا کر لوٹنا
کفر ہے پتھراؤ سے گھبرانا تیرے شہر میں

گر ڈوبنا ہی اپنا مقدر ہے تو سنو
ڈوبیں گے ہم ضرورمگر ناخدا کے ساتھ

وہ تیغ مل گئی جس سے ہوا تھا قتل مرا
کسی کے ہاتھ کا اس پر نشاں نہیں ملتا

کیفی اعظمی کی پیدائش ایک گاؤں میں ہوئی تھی اور انہیں اپنی جائے پیدائش مجواں سے بے حد لگاؤ تھا، اسی لیے انہوں نے 40 برس ممبئی جیسے شہر میں گزارنے کے بعد آخری عمر میں مجواں مراجعت کی تھی۔ گاؤں کی سر گوشیاں بھی ان کے اشعار میں اکثر سنائی دیتی ہیں:

میر ابچپن بھی ساتھ لے آیا
گاؤں سے جب بھی آگیا کوئی

قربت کی ٹھنڈی چھاؤں میں یاد آئی اس کی دھوپ
قدرِ وطن ہوئی ہمیں ترکِ وطن کے بعد

وہ میرا گاؤں ہے وہ میرے گاؤں کے چولہے
کہ جن میں شعلے تو شعلے، دھواں نہیں ملتا

کیفی اعظمی تین شعری مجموعے جھنکار، آخرِ شب، آوارہ سجدے اور آخر میں ان کی کلیات ”سرمایہ“ کے نام سے شائع ہوئی۔ انہیں کئی ملکی اور غیر ملکی اعزازات سے بھی نوازا گیا، جس میں بھارت کا شہری اعزاز پدم شری بھی شامل ہے۔ مگر اردو زبان کے تئیں حکومت کے غیر جمہوری رویے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے انہوں نے یہ اعزاز واپس کر دیا تھا۔
کیفی صاحب اچھے شاعر ہی نہیں بہت اچھے انسان تھے۔ پٹنہ وہ صرف مشاعروں میں ہی نہیں ایپٹا کے جلسوں میں اور ڈراموں میں بھی شرکت کے لیے اکثر آتے رہتے تھے۔ میرے بارے میں اچھی طرح جانتے تھے کہ میں ترقی پسند ی کا شدید مخالف ہوں، اس کے باوجود رواداری کا یہ عالم تھا کہ جب آتے تو مجھے بلواتے۔ ان کے بولنے کا انداز بے حد دل نشیں تھا۔ ان کی باتیں سن کر لگتا تھا کہ بس وہ کہیں اور سنا کرے کوئی اور ان کی باتوں کا سلسلہ ختم نہ ہو۔
کیفی اعظمی نے بھار ت و پاک کے علاوہ دنیا کے مختلف ملکوں میں مشاعرے پڑھے۔ پاکستان کے مشاعروں میں وہ پانچ بار گئے تھے لیکن جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں ایک مشاعرہ میں گئے تو وہاں انہیں کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور واپسی کے بعد ایک قطعہ کہا تھا جسے اکثر سناتے رہتے تھے:

عجب کیا دامنِ یوسف کی عظمت اس کو مل جائے
کراچی میں جو میں تارِ گریباں چھوڑ آیا ہوں
جہاں ملتی ہے بے مانگے ہی سب کو دین کی دولت
میں اس بستی میں اپنا دین و ایماں چھوڑ آیا ہوں

کئی ناقدین اور محققین نے کیفی اعظمی کی تاریخ پیدائش 16 جنوری سنہ 1914 لکھی ہے۔ لیکن وہ خود اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ” کب پیدا ہوا , یاد نہیں۔۔۔ کب مروں گا، معلوم نہیں۔“
بچپن میں تو انہوں نے مولوی اور مجتہد بننے سے انکار کر دیا تھا۔ مگر آخری عمر میں انہوں نے پھر سے اسلام کا مطالعہ شروع کر دیا تھا اور اسی لیے وہ اپنا زیادہ وقت مجواں میں گزارتے تھے۔ لکھنئو کے شیعہ، سنی فساد سے بھی بہت بدحظ رہتے تھے۔ اس پر ایک غزل میں انہوں نے کربناک اشعار کہے تھے:

 عزاء میں بہتے تھے آنسو مگر لہو تو نہیں
یہ کوئی اور جگہ ہو گی لکھنئو تو نہیں
یہاں تو چلتی ہیں چھریاں زبان سے پہلے
یہ میر انیس کی، آتش کی گفتگو تو نہیں
اب اس کو چاہو تو اچھا سا نام تم دے لو
کیا ہے خون سے تم نے جو یہ وضو تو نہیں

دس مئی سنہ 2002ءکو کیفی اعظمی کا 84سال کی عمر میں ممبئی کے ایک اسپتال میں انتقال ہو گیا۔

Related posts

Leave a Comment