ارسلان ساحل ۔۔۔ دو غزلیں

کیا بتاؤں میں کہاں شام و سحر کرتا رہا
جیسے ممکن تھا ترے بعد سفر کرتا رہا

اس حویلی کی خموشی سے یہی لگتا ہے
کوئی گھُٹ گھُٹ کے یہاں عمر بسر کرتا رہا

کمسنی میری کہاں اور کہاں شعر و سخن
کام مشکل تھا مرے یار ، مگر کرتا رہا

خوب کی اُس نے ہواؤں کی حمایت لیکن
میں بھی ظلمت میں چراغوں کو امر کرتا رہا

عین ممکن ہے کہ کھل جائیں بدن کی پرتیں
ہجر سینے میں یونہی شور اگر کرتا رہا

اُس نے سیکھا ہے پرندوں سے تکّلم کا ہنر
رات بھر بات، مرے ساتھ، شجر کرتا رہا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے چہرے پہ جو اداسی ہے
ایک جاں سوز بدحواسی ہے

میں قلندر دیارِ طیبہ کا
توکہ! پارس کی دیوداسی ہے

تیرے بن ہیں یہ بام و در خاموش
اور اداسی بھی اچھی خاصی ہے

میں شبِ ہجر کس طرح کاٹوں؟
دیکھ! سگریٹ بھی اب ذرا سی ہے

تم بھی وعدہ خلاف ہو یعنی
یہ محبت بھی اب سیاسی ہے

Related posts

Leave a Comment