اسلام عظمی ۔۔۔ رونقیں ویسی کی ویسی ہیں نگر باقی نہیں

رونقیں ویسی کی ویسی ہیں نگر باقی نہیں
تھی کتابِ زندگی میں جو خبر باقی نہیں

رات بھر پھر کس لیے ہے سرگراں وحشی ہوا
کوئی بھی تو قرض اِب عشاق پر باقی نہیں

اِک سفر واجب ہی رہنا ہے مسافر پر ترے
لوگ بولیں گے وگرنہ خیر و شر باقی نہیں

وقت میلہ گھوم آیا ہے اگرچہ ہر کوئی
پھر بھی کہنا ہے غلط کوئی سفر باقی نہیں

ایک آہٹ کس لیے بیدار رکھتی ہے تجھے
جنگ ہے تُو ہار بیٹھا اور سپر باقی نہیں

ریت چادر پر اُترآئیں پرندے کس طرح
لہر کوئی تیرے دریا میں اگر باقی نہیں

عادتاً ہے لکھتا رہتا عظمیؔ اپنی داستاں
’’سطرِ مستحکم کے اندر بست و در باقی نہیں‘‘

Related posts

Leave a Comment