اعجاز روشن ۔۔۔ کہاں سے آئے گا بانٹے جو غم ہمارے بھی (ماہنامہ بیاض اکتوبر ۲۰۲۳)

کہاں سے آئے گا بانٹے جو غم ہمارے بھی
بھنور کی زد میں ہیں دریا بھی اور کنارے بھی

ضرورتوں سے نکل کر نہ دیکھ پائیں گے
زمیں پہ کوئی ستارے اگر اتارے بھی

بغیر بھیگے سمندر سے کوئی کب نکلا
کسے نصیب محبت ، بنا خسارے بھی

وہ جس کی بات بھی سر سے گزر ہی جاتی ہے
وہ چاہتا ہے کہ سمجھیں سبھی اشارے بھی

یہ شاعری ، یہ مرے خواب اور خیال ترا
دوام دے گئے یہ عارضی سہارے بھی

میں کیسے ڈال دوں دریا میں اپنی کشتی کو
کہ منزلوں کو پکاریں جہاں کنارے بھی

کسی وجود میں روشن میں ڈھل بھی سکتا ہوں
مجھے خیال سے باہر کوئی پکارے بھی

Related posts

Leave a Comment