اعجاز کنور راجہ ۔۔۔ جانے کس سمت کوئی بابِ سفر کھولتا ہے

جانے کس سمت کوئی بابِ سفر کھولتا ہے
سانس اکھڑتی ہے نہ اس رہ پہ قدم ڈولتا ہے

ایک ہی وقت میں آنکھوں سے بدن سے لب سے
اک وہی شخص محبت کی زباں بولتا ہے

پھول کھل اٹھتے ہیں گلدان میں مرجھائے ہوئے
لمس پوروں کا تحیّر کی گرہ کھولتا ہے

پاؤں رکھتا ہے زمیں پر تو زمیں جھومتی ہے
سانس لیتا ہے کہ وہ بادِ صبا جھولتا ہے

اس کی خوشبو سے مہک اٹھتی ہے کمرے کی فضا
پھول کھلتا ہے کہ وہ بندِ قبا کھولتا ہے

جانچ لیتی ہے وفا نرم نگاہی اس کی
وہ اسی باٹ سے ہر شے کابھرم تولتا ہے

ایک تو اردو زباں، اُس پہ وہ لہجے کی کھنک
دیر تک بولنے دیتا ہوں اگر بولتا ہے

ڈھب سے چلنا ہے ترے شہر کی گلیوں میں مجھے
روک لیتا ہوں قدم پاؤں جہاں ڈولتا ہے

لفظ بھی شہد سے میٹھے ہیں کنور ، اور ان کے
ایک اک حرف میں شیرینی ٔ لب گھولتا ہے

Related posts

Leave a Comment