آفتاب محمود شمس ۔۔۔ دھوپ یادوں کی اگر برسے تو چھایا کرتے

دھوپ یادوں کی اگر برسے تو چھایا کرتے
سارے لمحے تری فرقت کے منایا کرتے

قید میں دن ہے اگر اجلے ہوئے چہرے کا
رات آنکھوں کی بھی پردے میں چھپایا کرتے

سوگ ہوتا ہے نگاہوں میں چھپاکر لیکن
شامِ  فر قت میں وہ یادوں کو ہیں گایا کرتے

بات کرنے کی بھی فرصت نہ تھی جن کو اب تک
شہرِ خاموش میں پلکیں ہیں جلایا کرتے

پیڑ سوکھے ہوئے پتوں سے یہ کہتے ہیں شمس
لوگ گل کو ہی ہیں آنکھوں سے لگایا کرتے

Related posts

Leave a Comment