آفتاب محمود شمس ۔۔۔ مانگ لائے جو زمانے سے ادھارے ، اکثر

مانگ لائے جو زمانے سے ادھارے ، اکثر سارے لمحے تری یادوں میں گزارے اکثر پھر سے ملنا ہو مقدر میں نہ شاید اب کے دور جا کر وہ نگاہوں سے پکارے اکثر وہ محبت گو مکیں ہے مرے دل میں اب تک جو چمکتے ہیں یہ پلکوں پہ ستارے اکثر تم بھی کرتے ہو تکلم جو بہاروں سے اب دل یہ میرا بھی شجر کو ہے پکارے اکثر اپنی بیٹی کا جنم دن وہ منائے گا کب بیچتا ہے یہ جو گلیوں میں غبارے اکثر

Read More

آفتاب محمود شمس ۔۔۔ دھوپ یادوں کی اگر برسے تو چھایا کرتے

دھوپ یادوں کی اگر برسے تو چھایا کرتے سارے لمحے تری فرقت کے منایا کرتے قید میں دن ہے اگر اجلے ہوئے چہرے کا رات آنکھوں کی بھی پردے میں چھپایا کرتے سوگ ہوتا ہے نگاہوں میں چھپاکر لیکن شامِ  فر قت میں وہ یادوں کو ہیں گایا کرتے بات کرنے کی بھی فرصت نہ تھی جن کو اب تک شہرِ خاموش میں پلکیں ہیں جلایا کرتے پیڑ سوکھے ہوئے پتوں سے یہ کہتے ہیں شمس لوگ گل کو ہی ہیں آنکھوں سے لگایا کرتے

Read More