جلیل عالی ۔۔۔ پھر سوچ کے ساحل پر لہروں  نے یہ ٹھانی ہے

پھر سوچ کے ساحل پر لہروں  نے یہ ٹھانی ہے
کچھ نقش مٹانے ہیں اک شکل بنانی ہے

گر ذوقِ سماعت ہو بے صوت صداؤ ں کا
اک لمحۂ فانی بھی صدیوں کی کہانی ہے

یا بحر کی گہرائی کچھ دل سے نہیں کہتی
یا قطرۂ شبنم بھی دریائے معانی ہے

ہر عرضِ تمنا کا انجام ہے اک جیسا
ہیں خواب نئے لیکن تعبیر پرانی ہے

اب اور تو کچھ ایسے آثارنہیں ملتے
اک یاد تری اپنے ہونے کی نشانی ہے

کیوں بات سنو دل کی اِس راہ میں تو عالی
بس درد کمانے ہیں بس عمر گنوانی ہے

Related posts

Leave a Comment