جمیل یوسف ۔۔۔ کسی نے مجھ سے کہا ہے ، بہت اُداسی ہے

کسی نے مجھ سے کہا ہے ، بہت اُداسی ہے
نظر میں ایک خلا ہے بہت اُداسی ہے

ہوا بھی ٹھہری ہوئی ہے ، فضا بھی ہے خاموش
کہیں پہ کچھ تو ہوا ہے بہت اداسی ہے

سفید برف کی مانند کورے کاغذ پر
مِرے قلم نے لکھا ہے بہت اداسی ہے

میں کب سے گوش برآواز ہوں پکارو بھی
تمھیں تو اس کا پتہ ہے، بہت اداسی ہے

یہ لمحہ رُک سا گیا ہے کہ دیکھیے کیا ہو
کہیں سے اس نے سنا ہے بہت اداسی ہے

تمھاری جنبشِ لب سے سکوت ٹوٹے گا
سکوت چھایا ہوا ہے بہت اداسی ہے

کوئی رفیق کوئی آشنا نہیں بولا
یہ دھڑکنوں کی صدا ہے بہت اداسی ہے

مرے دریچے یہ شاید ہوا نے دستک دی
اُسے بھی میں نے کہا ہے بہت اداسی ہے

ترے لبوں کی حسیں پتیوں میں جنبش ہو
یہی تو ردِ بلا ہے بہت اداسی ہے

وہ راستہ بھی جو تیری گلی کو جاتا ہے
بہت اداس پڑا ہے بہت اداسی ہے

گلی کے موڑ پہ سُوکھا ہوا شجر تنہا
خراب و خستہ کھڑا ہے بہت اداسی ہے

Related posts

Leave a Comment