خاور اعجاز ۔۔۔ خواب میں ہار پروتے ہُوئے رہ جاتے ہیں

خواب میں ہار پروتے ہُوئے رہ جاتے ہیں
فصلِ گُل ! ہم یونہی سوتے ہُوئے رہ جاتے ہیں

دامنِ غیر تو بھر جاتا ہے لیکن اکثر
تیرے بندے تیرے ہوتے ہُوئے رہ جاتے ہیں

لوگ ملبوس بدل لیتے ہیں پل میں اور ہم
داغِ پندار ہی دھوتے ہُوئے رہ جاتے ہیں

فصل کٹ جاتی ہے بیتاب سروں کی اور وہ
امن کا بیج ہی بوتے ہُوئے رہ جاتے ہیں

بیت جاتی ہیں مہکتی ہُوئی عمریں اور لوگ
سانس کی گٹھڑیاں ڈھوتے ہُوئے رہ جاتے ہیں

Related posts

Leave a Comment