ذوالفقار نقوی … درد اپنے نہ یوں چھپایا کر

درد اپنے نہ یوں چھپایا کر
اپنا حصہ مجھے بنایا کر

میرے ہلکے سے اک تبسم پر
آسماں سر پہ نہ اٹھایا کر

بام و در راہ تکتے رہتے ہیں
میرے گھر میں بھی آیا جایا کر

جام و مینا سے جی نہیں بھرتا
اب سمندر مجھے پلایا کر

دل کی ٹیسوں سے جو نکلتا ہے
اُس دھویں سے نظر ملایا کر

آئنے ٹوٹ جائیں گے سارے
پتھروں کو نہ یوں سجایا کر

اے مرے درد آ گلے لگ جا
مجھ سے نظریں نہ تو چرایا کر

بُخل سے باز آ، شہہِ خاور
میری تیرہ شبی مٹایا کر

کاٹ لے سر مرا مگر ظالم
میری دستار نہ گرایا کر

درد اچھے ہیں ذوالفقار میاں
راحتوں کو نہ منہ لگایا کر

Related posts

Leave a Comment