سحر تاب رومانی ۔۔۔ پیڑ سے جھڑتے ہوئے اِن پات سے

پیڑ سے جھڑتے ہوئے اِن پات سے
بات پیدا کر رہا ہوں بات سے

زندگی جیسے کوئی خالی مکاں
اور میں بھرپور امکانات سے

آنکھ میری تھی برسنا چاہتی
مسئلہ تھا شہر کو برسات سے

ایک دن پھر قحط پیدا ہو گیا
میرے گھر میں رزق کی بہتات سے

خواب میں بیٹھا ہوں اک اونچی جگہ
دل پریشاں ہے مِرا کل رات سے

مغز ماری کون کرتا اِس قدر
میں نے سمجھوتا کیا حالات سے

دیکھیے اب جیت کس کی ہوتی ہے
چھیڑ دی ہے جنگ اپنی ذات سے

کیوں نہ جانیں گے مجھے تیرے شجر
پھل جو توڑے ہیں تِرے باغات سے

اُس کو لنگر سے پڑا کھانا سحر
ہاتھ روکا جس نے بھی خیرات سے

Related posts

Leave a Comment