علمدار حسین ۔۔۔ وہ جو دریا تھا وہ دریا تھا نہیں (ماہنامہ بیاض لاہور ، اکتوبر 2023 )

وہ جو دریا تھا وہ دریا تھا نہیں
خیر اچھا ہے میں پیاسا تھا نہیں

اس میں جو ڈوبا وہ پھر ابھرا کہاں
ظاہراً پانی جو گہرا تھا نہیں

خیرگی کا اک بہانہ تھا فقط
جو اجالا تھا ، اجالا تھا نہیں

شہر میں ہر سمت پھیلے تھے سراب
کوئی جیسا تھا ، وہ ویسا تھا نہیں

وہ جو میرا تھا نہیں ، میرا تھا وہ
وہ جو میرا تھا ، وہ میرا تھا نہیں

دوستوں کو بھی کوئی پرخاش تھی
پہلے ان کا یہ رویہ تھا نہیں

یاد آئے ٹوٹ کر اپنے وہاں
وہ جہاں کوئی پرایا تھا نہیں

در حقیقت تھا غبارِ کارواں
وہ جو گریہ تھا ، وہ گریہ تھا نہیں

میں کہ در آیا تھا اک دیوار سے
مڑ کے جب دیکھا تو رستہ تھا نہیں

دشمنوں کو یہ غلط فہمی رہی
در حقیقت میں اکیلا تھا نہیں
حادثوں ہی سے کھلا مجھ پر خدا
وہ ہوا اکثر جو سوچا تھا نہیں

اک بغاوت تھی مسلسل دم بہ دم
سانس کا نوحہ بھی نوحہ تھا نہیں

جسم پر پہرے تھے سو پہرے رہے
سوچ پر تو کوئی پہرا تھا نہیں

در حقیقت جو عقیدہ تھا مرا
کیا کہو ں میرا عقیدہ تھا نہیں

سارے سچے مقتلوں میں جا بسے
شہر میں اب کوئی سچا تھا نہیں

جان دے کر ہم اماں میں آگئے
اس سے بہتر کوئی جزیہ تھا نہیں

مدتوں جس کو تراشا خواب میں
خواب سے باہر وہ چہرہ تھا نہیں

Related posts

Leave a Comment