محمود کیفی ۔۔۔ وہ میں نہیں تھا ، مگر وہ میری ہی ذات سمجھے

وہ میں نہیں تھا ، مگر وہ میری ہی ذات سمجھے
عجیب تھے لوگ وہ بھی جو دِن کو رات سمجھے

ہو مُلک پر جب امیر زادے کی حکمرانی
غریب لوگوں کی کیسے وہ مشکلات سمجھے

خدا کے بارے میں بُت پرستوں سے بات کی تو
کبھی وہ عُزٰی ، کبھی وہ لات و منات سمجھے

ابھی وہ غُصّے میں ہے ، ابھی تُم خموش بیٹھو
نہیں یہ ممکن ابھی تُمھاری وہ بات سمجھے

میں دوستوں کی مدد کو بیٹھا تھا کیفی لیکن
وہ میرے چُھپ بیٹھنے کو دُشمن کی گھات سمجھے

Related posts

Leave a Comment