اکرم کنجاہی … مرگِ آرزو

مرگِ آرزو
……………
اے دل!
مرگِ آرزو کا تم کبھی ماتم نہ کرنا
یہ وہ اندوہِ پنہاں ہے
کہ جس پر کوئی بھی
اظہارِ تعزیت نہیں کرتا
یہ مانا کارِ ہستی
لینے کچھ دینے سے چلتا ہے
مگر دنیا میں پیارے
لوگ ایسے بھی تو ہوتے ہیں
جو دنیا سے کسی بھی جنس کی صورت
کچھ نہیں لیتے
وہ خود تقسیم کرتے ہیں
اپنی محنت کے ثمر
اور صلے کی آرزو مندی نہیں کرتے
اِس لیے، دل درد آشنا میرے
اندوہِ ناکامی کا
مداوا کر لینا ہی بہتر ہے
تم گدازِ دل ذرا سا
گیت میں ڈھالو
اور اپنی دہن بستہ محبت کو
ذرا اذنِ تکلم دو
کہ یہ لا فانی سا جذبہ ہے
امر ہونے تو دو
اور لفظِ مرگ کو اِس کے لیے
بے معنی و مفہوم رہنے دو
کہ یہ دکھ! دل کی لحد میں دفن کر کے
گھر کو لوٹنا پڑتا ہے چپکے سے

Related posts

Leave a Comment