رخشندہ نوید ۔۔۔ امرتا پریتم

وقت کے اندھے کنویں کو دیکھا
بھیگی آنکھ سے اُس نے
ننگے پائوں صحرائوں کو ناپنے وہ نکلی تھی
اور دریا کے پار بھی اتری اک اک موج کے ساتھ
پلک پلک میں بھری ہوئی اک اشکوں کی برسات
دیکھے کون اِن آنسوئوں کی بارش
کا گرتا پانی
دل آہوں کی روانی
وہ پنجاب کے دکھ کی ماری
ہجر میں اُس نے عمر گزاری
سینے بھر کر ریت!
دکھ کے گھونٹ بھرے توگلے میں اٹک گئی اک چیخ
نوکِ زباں پر
سسکی جیسے بھٹک رہے کچھ راز،
ٹوٹے پنچھی کے کسی پرَ کی آئی تھی آواز
اُس نے چاہا لاکھ کہ پلٹے پیچھے
ان رستوں کو
اور وہ دیکھے دروازوں پر اپنے پیارے
روتے کچھ ہنستوں کو
لیکن کبھی وہ پلٹ نہ پائی
کھلا ہوا تھا دَر
اُس کا خالی گھر!

Related posts

Leave a Comment