شوکت محمود شوکت ۔۔۔ نوائے درد

اے دلِ مضطر بتا ، جا کر سکوں پائیں کہاں
اس جہانِ آب و گِل کو چھوڑ کر جائیں کہاں

اب یہاں پر چاہتوں کی محفلیں باقی نہیں
مائلِ الطاف پہلے کی طرح ساقی نہیں

ظُلم کی چکّی میں پِستے چار سُو انسان دیکھ
شش جہت پھیلا ہواہے موت کا سامان دیکھ

کاشمر ہو یا فلسطیں یا مرا بغداد ہو
خطّۂ مسلم ہمیشہ زیرِ استبداد ہو

بن چکا شیوہ ، چھپانا صدق کو ، حق بات کو
چاپلوسی کے سبب ، ہم دن بتائیں رات کو

سلب اپنی قوتِ گفتار ، گویا ہو گئی
زندگانی ، باعثِ آزار ، گویا ہو گئی

گر ہلاتا ہے کوئی بھی عدل کی زنجیر کو
وہ لگاتا ہے گلے سے خنجر و شمشیر کو

ذلّتیں اپنا مقدّر بن چکیں ، خاموش ہیں
کچھ نہیں سود و زیاں کی فکر یوں مدہوش ہیں

بات چلتی ہے فقط اب کفر کی ، طاغوت کی
ہو رہی ہے پیروی ، ہاروت کی ، ماروت کی

ہے عدو اب کے بشر کا یہ بشر کیا کیجیے
ایک ہی آدم کے ہیں سارے پسر کیا کیجیے

سارے عالم میں کوئی بھی گوشہ ٔ راحت نہیں
چین پانے کی یہاں اب کوئی بھی صورت نہیں

ہو گئے منکر ، خدائے پاک کے احکام کے
ہیں تمنّائی مگر ، الطاف کے ، اکرام کے

اشرف المخلوق انساں ، رازِ حق کا راز داں
گِر گیا ہے پستیوں میں ، ’’الحفیظ و الاماں‘‘

ہے یہ دنیا اک تماشا جادہ ِمنزل نہیں
راہ رو بھٹکے ہوئے ہیں رہبرِ کامل نہیں

سوچ پہ چھائے ہوئے ، یاجوج ہیں ، ماجوج ہیں
کچھ سمجھ آتا نہیں ، اذہان ہی مفلوج ہیں

ہم کو ہے کرنی بغاوت اب کے ان حالات سے
ہم کو ہے باہر نکلنا ، قلزمِ ظلمات سے

تاکہ پھر سے کام اپنا عدل کی تلقین ہو
زندگی اک بار پھر سے ’’اُدخلُو فی الدین‘ ہو

Related posts

Leave a Comment