محمد انیس انصاری ۔۔۔ عداس

عداس
……..
تجھے سلام!
اے انگوروں کے شیریں خوشوں سے لہکتی ڈالی
اے طائف کے باغ کے مالی
لہو لہو منظر،
پتھریلے موسم،
وحشی جذبوں
اور سلگتے لمحوں میں
گھائل بدنوں کے اور غریب الوطنوں کے دَمسازِ عالی
پتھر برساتی بستی کے خنک مقالی
میں نے تجھے
آقاؐ کے حضور سخن کرتے،
دم بھرتے،
محبت کرتے دیکھا ہے
حُسنِ عقیدت سے آقاؐ کے ہاتھ اور پاؤں چومتے،
وادیٔ عشق میں گھومتے دیکھا ہے
دلجوئی کی گیلی ساتعوں میں
اکرام وتواضع کرتے،
صورتِ بادِ شمال گزرتے،
زینہ چارہ گراں سے اُترتے دیکھا ہے
٭
اے طائف کو شہرِ سنگ زَناں کہنے والو!
میری آنکھوں سے اس شہر کو دیکھو
میرا طائف،
بدن دریدہ،
دل افگاروں اور جاں پر سوزوں کا لباس ہے
کُوئے سپاس ہے،
دائرئہ ہستی کارِ داس ہے
بوسہ گاہِ عداس ہے
بوسہ گاہِ عداس ہے

Related posts

Leave a Comment