گلزار بخاری ۔۔۔ سائے

تجھ کو دیکھا ہے دھوپ میں جلتے
جی جلاتا ہے اضطراب ترا
آگ سے کم نہیں ہے گرمی بھی
جس نے جھلسا دیا شباب ترا
کندنی رنگ ہو گیا ایسا
خستہ ہے خال و خد کی زیبائی
چاند زیرِ غبار ہو جیسے
تیرے چہرے کا حال ہے ایسا
جیسے مرجھا گیا ہو پھول کوئی
شاخِ زیتون تازگی کھوئے
اور ہو فاختہ ملول کوئی
تجھ کو تکلیف سے بچا لیتے
دکھ سے امن و امان بن جاتے
ڈھال بنتے تری تمازت میں
کاش ہم سائبان بن جاتے
جن کو دنیا درخت کہتی ہے
چھائوں کا شامیانہ ہوتے ہیں
تھکے ہارے مسافروں کے لیے
بیٹھنے کا بہانہ ہوتے ہیں
دکھ ہے یہ ہم ہیں اُس قبیلے سے
جس نے کاٹے شجر، لگائے نہیں
اس کا باعث ہے کون اپنے سوا
اب اگر مہربان سائے نہیں

Related posts

Leave a Comment