اکرم کنجاہی ۔۔۔ تسنیم کوثر (مضمون)

تسنیم کوثر

لاہور میں مقیم معروف شاعرہ اور افسانہ نگارہ تسنیم کوثر کے افسانوی کردار عمومی طور پرمختلف ہوتے ہیں۔جیسے اُن کے افسانے ’’لینڈ لیڈی‘‘ کا مرکزی کردار ’’زینی‘‘ یا پھر ’’بھاری قیمت‘‘ کا مرکزی کردار ’’بھاگاں۔‘‘ اُن کے ہاں تانیثیت بھی جھلکتی ہے۔مرد اساس معاشرے میں عورت کی مجبوریوں کی عکاسی خوب ہے۔عورت کا شوہر   کس طرح اُس کی وفا داری اور قربانیوں کو فراموش کر کے بے حس پتھر بن جاتا ہے۔نسائی مسائل کو انہوں نے اِس حوالے سے اعتدال اورمتوازن انداز میں پیش کیا ہے کہ اُس کو درپیش سماجی، معاشرتی اورمعاشی مسائل کا سبب  کبھی تو پدر سری معاشرے میں مرد بنتا ہے جو خلع کے وقت عورت کی کردار کشی سے بھی باز نہیں آتا اور کبھی خود عورت حسد اور جلن میں مبتلا ہو کر خود دوسری عورت کے لیے زندگی جہنم بنا دیتی ہے جیسے تسنیم کوثر کے افسانے ’’مدو جزر‘‘ میں ہوتا ہے۔عورتوں کی نفسیات پر اُن کی گہری نظر ہے۔انہوں نے اپنے افسانوں کے لیے پلاٹ اپنے گردو پیش ہی سے لیے ہیں۔ ایسے کرداروں کو بھی موضوع بنایا ہے جو دوسروں کے جذبات سے کھل کر فائدہ اٹھاتے اور اپنا اُلو سیدھا کرتے ہیں۔ جیسے افسانہ ’’دیتے ہیں دھوکہ …‘‘ میں گھر کی ملازمہ ’’ناصرہ‘‘ اپنی بیٹی کے جہیز کا ڈھنڈورا پیٹ کر مال بٹورتی رہتی ہے اور جب راز فاش ہو جاتا ہے تو کسی اور سادہ لوح گھرانے کی تلاش میں چل نکلتی ہے۔خواتین ملازمین سے واسطہ زیادہ پڑتا ہے،اِس لیے اُن کے افسانوں میں اُن کی نفسیات کا عمدہ جائزہ لیا گیا ہوتا ہے۔ بیانیہ طرز کا عمدہ افسانہ ہے۔
افسانہ ’’مدو جزر…غنیمت ۲۲‘‘ اِس افسانے کے تین پہلو ہیں:۔ ایک تو ۸ ؍  اکتوبر  ۲۰۰۵ء کے زلزلے کی تباہ کاریوں کی یاد تازہ کی ہے۔دوسری بات یہ کہ ہمارے معاشرے میں مرد اپنے ’’مجازی خدا‘‘ ہونے کا کتنا نا جائز  فائدہ  اٹھاتا ہے کہ اپنی شریکِ حیات کی زندگی جہنم بنا دیتا ہے۔اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’عارف سے ان دنوں میرا جھگڑا چل رہا تھا…میں گزشتہ پانچ برس سے اس کا ہر ستم برداشت  کر رہی تھی اور…میری یہی برداشت   اس کے حوصلے بڑھا رہی تھی… وہ جانتا تھا… میرا تعلق عورتوں کے اس قبیلے سے ہے جو… مقدر کا لکھا جان کر ہر زیادتی برداشت کر لیتی ہیں…ایک ہی کھونٹے سے بندھی رہتی ہیں… ہر  ستم سہہ جاتی ہیں۔ مگر…طلاق کا لفظ سننا بھی گناہ سمجھتی ہیں۔
عارف کو اپنی اہمیت اور میری حیثیت کا اندازہ تھا۔
میں نے…اس کے ساتھ چلنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ اس کی ہر بات مانی تھی۔
وہ جو کہتا رہا… میں کرتی رہی۔
اس نے مجھے ملازمت چھوڑنے کو کہا… میں نے اپنی سرکاری ملازمت چھوڑ دی … میرے عزیز و اقارب کے آنے پر اس نے ناگواری کا اظہار کیا۔ میں نے سب سے کنارہ کشی اختیار کر لی…
میں عارف کی ذات میں گم ہو کر رہ گئی… اپنا آپ مٹا ڈالا مگر… حالات بگڑتے ہی چلے گئے۔
عارف کی تنگ دلی اور تنگ نظری نے مجھے اتنی اذیت دی…اتنا ستا یا کہ میں اپنی زندگی کا ایک اہم فیصلہ کرنے پر مجبور ہو گئی۔‘‘
اور تیسری بات انسان ہی ’’میڈم ‘‘ کی صورت فرشتہ بن کر کسی کی زندگی میں آ جاتا ہے اور انسان ہی ’’صفیہ‘‘ کی طرح شیطان بن کر دوسرے کی زندگی کو جہنم بنا دیتا ہے۔ ایک عورت کا دوسری عورت سے حسد نمایاں ہے:
’’صفیہ جی کے بہتان نے میری زندگی کو اتھل پتھل کر دیا تھا۔
زلزلے کی تباہ کاریاں پوری دنیا نے دیکھی تھیں مگر…
میری تباہی کی کسی کو خبر نہ ہوئی۔
کچھ چیزیں جب ٹوٹتی ہیں تو…کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔
دل ٹوٹ جائے یا اعتبار…کوئی آواز نہیں آتی۔
ہاں!  تکلیف  بہت ہوتی ہے، انسان بکھر جاتا ہے۔
میں بھی بکھر گئی تھی۔
انسانی حقوق کے نمائندوں نے میرے حقوق سلب کر لیے تھے۔
میری ساری خوبیاں ایک بہتان تلے دب گئی تھیں۔
ذلتوں کے پھنیئر ناگ مجھے ڈس چکے تھے… زہر میری رگ رگ میں اترنے لگا تھا۔
تیمور وہیں کا وہیں تھا جبکہ میں… در بدر کر دی گئی تھی۔ نین سکھ کی بستی اب میرا مسکن تھی۔ میں گھر میں قید ہو کر رہ گئی تھی۔ لوگوں سے ڈرنے لگی تھی۔
میری زندگی میں دو عورتیں آئی تھیں۔
ایک عورت کی جلن نے میری زندگی کا چلن ہی بدل دیا تھا۔
ایک نے اپنی مہربانیوں سے مجھے عروج پر پہنچا دیا تھا۔ اور… دوسری عورت… مجھے ذلت کی پستیوں میں دھکیل گئی تھی۔‘‘
’’لینڈ لیڈی…سہ ماہی غنیمت ۲۱‘‘ایک آسائشوں کی تمنّائی امیر گھرانے کی خاتون کی کہانی ہے جسے ایسا شوہر   چاہیے تھا جو کماؤ ہو اور اُس سے دب کر بھی رہے۔ افسانے میں مصنفہ نے زینی کی ’’کردار نگاری‘‘ پر محنت کی ہے، ایسے کہ اُس کی چلتی پھرتی تصویر سامنے آ گئی ہے۔ جب اُس کا کم رو شوہر ریٹائر ہو جاتا ہے تو خاتون کو اپنے معاملات میں اُس کی بے جا مداخلت پسند نہیں آتی اور وہ دارلامان میں پناہ لینے کا فیصلہ کرتی ہے اور مصنفہ سے کہتی ہے کہ کوئی ملازمت کرنا چاہتی ہے۔ لہٰذا افسانہ نگار اُس سے کہتی ہے:
’’ایسا نہیں ہے زینی میں تمہارا مذاق نہیں اُڑا رہی تمہاری بے وقوفی پہ غور کر رہی ہوں۔ دارالامان کوئی پکنک پوائنٹ نہیں زینی۔ یہاں آنے والی عورتیں اپنی کشتیاں جلا کے یہاں آتی ہیں کوئی کسی چاہنے والے کے جھانسے میں گھر بار تیاگ کے وہاں پہنچتی ہے اور کوئی سسرال یا شوہر   سے تنگ آکے پناہ لیتی ہے جبکہ…تمہارے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہے زینی …تم خود کو مظلوم سمجھ رہی ہو اور اسے ثابت کرنے پہ تلی ہو…گھر چھوڑنے کا جواز بنا رہی ہو۔ تم جیسی آسائشوں کی دلدادہ عور ت ایسے اداروں کی پابندیاں برداشت نہیں کر سکتی میری جان… تم صرف ایک شوہر  کے مسلط ہونے سے پریشان ہو… دارالامان میں تمہاری ہر حرکت تمہارے ہر فعل پر نظر ہوگی۔ تمہیں اس ادارے کے قواعد و ضوابط بھی ماننے  پڑیں  گے…مختلف مزاج مختلف ماحول کی عورتوں کے ساتھ رہنا… کھانا اور سونا پڑے گا…ایک کمرے کو ایک ہی باتھ روم کو شیئر کرنا پڑے گا اور…تم ایسا نہیں کر سکو گی زینی… میں تمہیں جانتی ہوں تمہاری عادات اور تمہاری شوقین مزاجی تمہاری سہل پسندی سے واقف ہوں تم وہاں نہیں رہ سکو گی۔
زینی کی خوب صورت بھیگی بھیگی آنکھیں میری صاف گوئی پہ حیرت سے پھیل گئی تھیں اور پھر… میری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی Land Ladyگاڑی کی چابی گھماتے ہوئے میرے گھر کی سیڑھیاں اتر    گئی تھی۔‘‘
موضوعاتی تنوع تو ہے مگر اختتامیے   چونکا دینے والے نہیں ہیں۔
’’بھاری قیمت… سہ ماہی غنیمت ۶‘‘ تسنیم کوثر نے زندگی اور محبت کا ایک رخ دکھایا ہے۔ افسانے سے ایک اقتباس مرکزی خیال کو واضح کر دے گا:
’’خوشی محمد نے بھاگاں کی بات مان لی۔ وہ رک گیا اور…پھر جیسے یہیں کا ہو رہا۔
پتہ ہی نہیں چلا کب اور کیسے؟
وہ بھاگاں کے دل کی سرحدیں پار کر بیٹھا۔ جانے کیسے ہوا یہ سب؟
دل کی بستی پہ پینتیس برس سے قبضہ جمائے جیلے  کو کب بھاگاں نے نکال باہر کیا؟ خبر ہی نہ ہوئی اور خوشی محمد نے اپنے خضاب رنگے بالوں اور میٹھی باتوں سے محبت کے وہ رنگ گھولے کہ بھاگاں…ان رنگوں کی پھوار میں بھیگتی چلی گئی۔ ڈھلتی عمر میں محبت کا طوفان آیا اور برسوں کی دیرینہ رفاقت کو بہا کر لے گیا۔
کم سنی کی محبت کی طرح…ڈھلتی عمر کی محبت بھی بڑی خطرناک ہوتی ہے۔ محبت کم سنی میں ہو تو…ماں باپ کی عزت داؤ  پر لگانا پڑتی ہے اور…محبت ڈھلتی عمر میں ہو تو اپنی راجدھانی لٹانا   پڑتی ہے۔
خوشی محمد کی چند روز ہ محبت…جمیل کی برسوں کی رفاقت پر غالب آگئی تھی تبھی تو …بھاگاں نے جمیل سے کاغذ مانگ لیا تھا۔
حویلی میں بھونچال آگیا تھا۔ گاؤں میں چہ میگوئیاں ہونے لگی تھیں۔‘‘

Related posts

Leave a Comment