رضوان احمد …. پروین شاکر: کھوئے ہوؤں کی جستجو کرنے والی شاعرہ

پروین شاکراردو شاعری میں ایک تتلی کی طرح رونما ہوئیں اور قوس قزح کے رنگ بکھیر کرفضا میں غائب ہو گئیں۔

بات 31 سال پرانی ہو گئی ہے۔ مگر مجھے اب تک یاد ہے اس پر وقت کی دھول جم نہیں سکی ہے۔ 1977ء میں نوخیز پروین شاکر شنکر شاد ہند و پاک مشاعرے میں دہلی تشریف لائی تھیں۔ مشاعرے کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر خارجہ اٹل بہاری واجپئی نے اپنی جذباتی تقریر میں کہا تھا کہ ابھی مجھے یہاں تشریف لائے پاکستان کے ایک شاعر ( سرور بارہ بنکوی ) نے بتایا کہ ان کی والدہ بارہ بنکی میں رہتی ہیں اور ان کے پاس وہاں جانے کا ویزہ نہیں ہے، اس لیے وہ اپنی والدہ سے نہیں مل سکتے اوراس وقت واجپئی کے اندر کا شاعر اچانک ہی بیدار ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ میں ملک کے وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے کہتا ہوں کہ دنیا کا کوئی قانون بیٹے کو ماں سے ملنے سے نہیں روک سکتا، اس لیے، آپ اپنی ماں سے ملنے جا سکتے ہیں۔

سرور بارہ بنکوی بارہ بنکی گئے اور پروین شاکر پٹنہ چلی آئیں۔ صرف پٹنہ ہی نہیں وہ اپنے وطن مالوف چندن پٹی (دربھنگہ ) بھی گئیں جہاں سے ان کے والدین ہجرت کر کے کراچی گئے تھے۔

پٹنہ میں ان سے میری ملاقات ان کی پھوپھی ڈاکٹر ذیشان فاطمی کی رہائش گاہ پر ہوئی تھی۔ جہاں ان کا قیام تھا۔ اس ملاقات میں ان کی شاعری کے بارے میں بھی باتیں ہوئیں اور سفر کے بھی بارے میں۔ اپنے وطن مالوف کی زیارت کر کے وہ بے حد جذباتی ہو رہی تھیں۔

اس وقت پروین شاکر کی عمر صرف 26سال تھی اور ان کا پہلا شعری مجموعہ ’خوشبو‘ حال ہی میں شائع ہوا تھا۔ اس کی خوشبو پٹنہ ہی نہیں بھارت کے مختلف ادبی حلقوں میں پہنچ چکی تھی اور ان کے متعدد اشعار کا ذکر ہر جگہ ہو رہا تھا:

جگنو کو دن کے وقت پکڑنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

حسن کو سمجھنے کو عمر چاہئے جاناں
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں

وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بات اچھی ہے یہی بس مرے ہر جائی کی

مجھے ہر کیفیت میں کیوں نہ سمجھے
وہ میرے سب حوالے جانتا ہے

میں اس کی دسترس میں ہوں مگر وہ
مجھے میری رضا سے مانگتا ہے

ان اشعار میں ایک الہڑ دوشیزہ کے شوخ وشنگ جذبات کا اظہا رہے اور اس وقت پروین شاکر اسی منزل میں تھیں۔ زندگی کے سنگلاخ راستوں کا احساس تو بعد میں ہوا جس کا اظہار ان کی بعد کی شاعری میں جگہ جگہ ملتا ہے۔

میری وہ پروین شاکر سے پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ ان کا خانوادہ صاحبان علم کا خانوادہ تھا۔ ان کے خاندان میں کئی نامور شعرا اور ادبا پیدا ہوئے۔ جن میں بہار حسین آبادی کی شخصیت بہت بلند و بالا ہے۔

ان سے ملاقات کے بعد میں پروین شاکر کی شاعری کا بہت سنجیدہ قاری رہا ہوں۔ ان کا بیشتر کلام فنون لاہور میں ہی شائع ہوا لیکن ان کے شعری مجموعے خوشبو ( 1976ء)، صد برگ (1980ء)،خود کلامی (1990ء)، انکار (1990ء) اور ماہ تمام (1994ء) پاکستان کے بعد بھارت میں بھی شائع ہو چکے تھے۔ اس لیے ان کا کلام یہاں بھی آسانی سے دستیاب تھا۔

پروین شاکر کی شاعری میں کربناک موڑ اس وقت آتا ہے جب ان کے شوہر نصیر علی سے ان کی علاحدگی ہو جاتی ہے اور جب وہ اس موضوع پر اظہار خیال کرتی ہیں تو ان کے بیان میں بہت تلخی آجاتی ہے:

طلاق دے تو رہے ہو مجھے غرور و قہر کے ساتھ
مرا شباب بھی لوٹا دو میرے مہر کے ساتھ

پروین شاکر کی پوری شاعری ان کے اپنے جذبات و احساسات کا اظہا رہے جو درد کائنات بن جاتا ہے اسی لیے انہیں دور جدید کی شاہرات میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ پروین شاکر کا تقابل ہندی کی مشہور شاعرہ میرا بائی سے کیا جاتا ہے اور وہ خود بھی اس کا اظہار کرنے میں تامل نہیں برتتیں۔ اپنے ایک انٹر ویو میں کہتی ہیں:

” ہمارے یہاں میرا بائی کی روایت تو تھی ہی جہاں عورت شعر کہتی ہے اور اسے عورت ہونے پر کوئی شرمندگی نہیں ہے اور وہ اپنے محبوب کی شخصیت، اس کے لباس، اس کے مزاج، اس کے طور طریقے سبھی کچھ شعر میں بیان کرتی ہے۔ یہ آپ کو دکنی شاعری میں بھی ملے گا۔ لیکن اس کے عہد کے مناظر سے متصل حقیقت یہ ہے کہ شعر کہنے والی عورت کو معاشرے نے اب آہستہ آہستہ قبول کیا ہے تو ظاہر ہے آج کی عورت جب اپنے پورے نسوانی محسوسات کے ساتھ شعر کہے گی تو اس کی زندگی کی سچائیاں ہی تو سامنے آئیں گی اگر اس نے اپنی زندگی میں ایک جیتے جاگتے مرد سے محبت کی ہے تو اس تجربے کو بیان کرے گی۔ جہاں تک ہندی کلاسیکی شاعری سے میرے متاثر ہونے کا سوال ہے تو میرا مطالعہ براہ راست تو ہے نہیں۔ میرا بائی کے کچھ انگریزی تراجم میں نے دیکھے ہیں۔ مجموعی طور پر میں یہ نتیجہ اخذ کرتی ہوں کہ اس وقت اردو شاعری میں شعر کہنے والی عورت کے رول میں اس جدید عہد اور آگہی کی برکت زیادہ ہے۔ پرانی ہندی شاعری کا عمل دخل نسبتاً کم ہے۔“

اسی انٹر ویو میں پروین شاکر نے یہ بھی اعتراف کیا ہے ”محبت کا فلسفہ میری شاعری کی بنیاد ہے اور اسی کے حوالے سے بھی اس ازلی مثلث یعنی انسان خدا او رکائنات کو دیکھتی اور سمجھتی ہوں۔“

پروین شاکر کی شاعری میں عور ت کے جذبات و احساسات کی شدت ہے۔ حالانکہ وہ یہ بھی اعتراف کرتی ہیں کہ وہ اپنے ہم عصروں میں کشور ناہید، پروین فنا سید، فہمیدہ ریاض کو پسند کرتی ہیں، لیکن ان کے یہاں احساس کی جو شدت ہے وہ ان کی ہم عصر دوسری شاعرا ت کے یہاں نظر نہیں آتی۔ بلکہ وہ تو کہتی ہیں۔ ” اگر میرے ڈکشن میں کوئی روایتی رکھ رکھاؤ ہے تو میرے اپنے مزاج اور مطالعے کی وجہ سے ہے۔ میں ایسا مانتی ہوں کہ کوئی بھی فن کار کسی بھی فن میں جب تک اس فن کے کلاسیکی ورثہ سے واقف نہیں ہو گا، اس وقت تک وہ اپنے فن میں تازگی یا ندرت پیدا نہیں کر سکے گا اور یہ بات صرف واقف ہونے کی نہیں ہے بلکہ اس سرمایے کو اپنے اندر اس طرح تحلیل کر لینے کی ہے کہ وہ اس کے اپنے اظہار کے انفرادی سانچوں میں ڈھل کر باہر آجائے۔“

اس کا مکمل تجربہ پروین شاکر کے یہاں ملتا ہے انہوں نے کلاسیکی ادب کے مطالعہ سے بہت کچھ حاصل کیا تھا اور اسے اپنے اندر جذب کر کے اپنا لب و لہجہ تشکیل دیا تھا۔ اس کا احساس ان کی نظموں اور غزلوں دونوں سے ہو تا ہے:

پا بہ گل سب ہیں رہائی کی کرے تدبیر کون
دست بستہ شہر میں کھولے مری زنجیر کون

میرا سر حاضر ہے لیکن میرا منصف دیکھ لے
کر رہا ہے میری فرد جرم کو تحریر کون

میری چادر تو چھنی تھی شام کی تنہائی میں
بے ردائی کو مری پھر دے گیا تشہیر کون

نیند جب خوابوں سے پیاری ہو تو ایسے عہد میں
خواب دیکھے کون اور خوابوں کی دے تعبیر کون

ریت ابھی پچھلے گھروندو ں سے نہ واپس آئی تھی
پھر لب ساحل گھروندا کر گیا تعمیر کون

دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں
دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پر پہلا تیر کون

اور ایسی نک سک سے ڈھلی اور جذبات سے لبریز متعدد غزلیں پروین شاکر کے یہاں ملتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار آج بھی بار بار دہرائے جاتے ہیں:
 
اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں
ایک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

نیند آجائے تو کیا محفلیں برباد لکھوں
آنکھ کھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں

چارہ گر ہار گیا ہو جیسے
اب تو مرنا ہی دوا ہو جیسے

مجھ سے بچھڑا تھا وہ پہلے ہی مگر
اب کے یہ زخم نیا ہو جیسے
میرے ماتھے پہ تیرے پیار کا ہاتھ
روح پر دست صبا ہو جیسے
یوں بہت ہنس کر ملا تھا لیکن
دل ہی دل میں وہ خفا ہو جیسے
سر چھپائیں تو بدن کھلتا ہے
زیست مفلس کی ردا ہو جیسے

میں بچ بھی جاؤں تو تنہائی ما ر ڈالے گی
مرے قبیلے کا ہر فرد قتل گاہ میں ہے

جستجو کھوئے ہوؤں کی عمر بھر کرتے رہے
چاند کے ہمراہ ہم ہر شب سفر کرتے رہے
راستوں کا علم تھا ہم کو نہ سمتو ں کی خبر
شہر نا معلوم کی جانب مگر کرتے رہے

اور کھوئے ہوؤں کی جستجو کرتے کرتے پروین شاکر کا عین جوانی میں چل بسیں۔ 26دسمبر1994ء کوایک کار حادثہ میں ان کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت ان کی عمرصرف 42 سال تھی۔ اس کے باوجود پروین شاکر نے شاعری کا قابل قدرسرمایہ چھوڑا ہے۔ جسے کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔

Related posts

Leave a Comment