حفیظ ہوشیارپوری ۔۔۔ اب کوئی آرزو نہیں ذوقِ پیام کے سوا

اب کوئی آرزو نہیں، ذوقِ پیام کے سوا اب کوئی جستجو نہیں، شوقِ سلام کے سوا کوئی شریکِ غم نہیں، اب تری یاد کے بغیر کوئی انیسِ دِل نہیں اب ترے نام کے سوا تیری نگاہِ مست سے مجھ پہ یہ راز کھل گیا اور بھی گردشیں ہیں کچھ، گردشِ جام کے سوا کاہشِ آرزو سہی حاصلِ زندگی، مگر حاصلِ آرزو ہے کیا، سوزِ مدام کے سوا آہ کوئی نہ کر سکا چارۂ تلخئ فراق نالۂ صبح کے بغیر، گریۂ شام کے سوا رنگِ بہار پر نہ بھول، بوئے چمن…

Read More

رفیق سندیلوی ۔۔۔ پَروں کا واہمہ ہے

پَروں کا واہمہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  پَروں کا واہمہ ہے اور مَیں اِس واہمے کی مستقل حالت میں خوابوں کی توانائی پہ زندہ ہُوں مَیں اپنا بھاری جثّہ ساتھ لے کر اُڑ نہیں سکتا زمیں پر رینگتا ہُوں سیدھ میں اور دائیں بائیں مُڑ نہیں سکتا مرے ہمراہ اِک ترتیب میں کیڑوں مکوڑوں کی بڑی لمبی قطاریں ہیں قطاریں ٹوٹ جاتی ہیں تو مَیں اِن جانداروں کے گھنے اَنبوہ میں در آنے والی کُلبلاہٹ سے قیامت لانے والی سَرسَراہٹ سے لرزتا ہُوں مگر مَیں رینگتا رہتا ہُوں اِس انبوہ میں چُپ…

Read More

ڈاکٹر نعمان قیصر ۔۔۔ زاہدہ خاتون شروانیہ کے تخلیقی وجود سے مکالمہ

زاہدہ خاتون شروانیہ کے تخلیقی وجود سے مکالمہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انیسویں صد ی کے اوائل میں جن شاعرات نے اردو کی نظمیہ شاعری میں کمال حاصل کیا، ان میں ایک نمایاں نام ز۔خ۔ ش۔ یعنی زاہدہ خاتون شروانیہ ہے۔ انھوں نے غزلیں بھی کہیں اور نثرکو بھی اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا،لیکن ان کے تخلیقی وفور کا احساس ان کی نظمیہ شاعری میں نمایاں ہے۔ان کا تاریخی اور تہذیبی شعور انتہائی بالیدہ ہے۔ان کو اسلامی اقداروروایات سے دلی لگاؤ ہے،جس کا احساس ان کی نظموں کی قرأ ت سے ہوتا ہے۔ان…

Read More

سید آل احمد ۔۔۔ شب کی آغوش میں سو جاتا ہوں

شب کی آغوش میں سو جاتا ہوں سنگ ہوں موم بھی ہو جاتا ہوں دل کا دروازہ کھلا مت رکھو یاد آنکھوں میں پرو جاتا ہوں جس کے لہجے میں وفا کھلتی ہو میں تو اُس شخص کا ہو جاتا ہوں دن میں سہتا ہوں بصیرت کا عذاب شام کے شہر میں کھو جاتا ہوں میری خاطر نہ تکلف کیجیے میں تو کانٹوں پہ بھی سو جاتا ہوں گاہے اظہار کو دیتا ہوں ہنر گاہے دیوالیہ ہو جاتا ہوں جب بھی بحران کا رَن پڑتا ہے میں تری ذات میں…

Read More