خالد علیم ۔۔۔ آنکھ اُس کی آج آئنہ دارِ نظارہ ہے

آنکھ اُس کی آج آئنہ دارِ نظارہ ہے کیا دل کا اعتبار کہ بارِ نظارہ ہے دیکھیں اگر تو چشمِ تصور میں وہ نگاہ حُسنِ نظر ہے اور شمارِ نظارہ ہے جل جل کے بجھ رہا ہے دریچوں میں عکسِ گل یہ شامِ ہجر ہے کہ بہارِ نظارہ ہے ہر سمت ہیں سراب کے منظر کھنچے ہوئے کیا خوب تیری راہ گزارِ نظارہ ہے تارے بجھے ہوئے ہیں، سسکتی ہے چاندنی یہ رات ہے کہ سر پہ غبارِ نظارہ ہے گرتی ہے قطرہ قطرہ شفق صبحِ ہجر میں نم دیدۂ…

Read More

سعدیہ بشیر ۔۔۔ یا رب تری زمین تو صدموں سے بھر گئ

یا رب تری زمین تو صدموں سے بھر گئی روشن سے دن میں دشت کی وحشت اتر گئی تعبیر تھی جو عاقل و باصر نہ رہ سکی تدبیر اب کے ایک بھی کب کارگر گئی ایسی تھی کھینچ تان کہ سب خواب پھٹ گئے ایسی خبر تھی خود سے بھی جو بے خبر گئی حالانکہ حکم تھا کوئی گھبرائے گا نہیں وعدے کتاب میں لکھے خلقت سنور گئی کیسا عمل تھا پار بھی اترا نہ جا سکا دیوار اپنے ڈھب سے ہی ہر اک نگر گئی ان تذکروں میں ایک…

Read More

عمر قیاز قائل ۔۔۔ میں جو اِس بار ہَواؤں کی حمایت کرتا

میں جو اِس بار ہَواؤں کی حمایت کرتا کون جلتی ہُوئی شمعوں کی حفاظت کرتا شہر کا شہر تھا قاتل کی طرفداری میں میں کہاں جا کے بھلا اپنی شکایت کرتا ایک لمحے کی جُدائی بھی قیامت سمجھا عُمر بھر کے لیے کیوں قطعِ محبّت کرتا اپنا ہی شہر تھا سب لوگ مرے اپنے تھے دُکھ کی یُورش تھی مگر کیسے میں ہجرت کرتا اُس نے چھلنی مرے احساس کو کر دینا تھا کون اُس خارِ مُغیلاں سے محبّت کرتا لوگ اندھے بھی تھے بِہرے بھی تھے ورنہ قائل جی…

Read More

طالب انصاری ۔۔۔ کنارا خود نہیں ملتا کنارا ڈھونڈھ لیتا ہوں

کنارا خود نہیں ملتا کنارا ڈھونڈھ لیتا ہوں بسا اوقات تنکے کا سہارا ڈھونڈ لیتا ہوں یہی حسنِ گماں ہے جو مجھے دل شاد رکھتا ہے میں نفرت میں محبت کا اشارا ڈھونڈ لیتا ہوں مجھے اچھّا نہیں لگتا کہ کوشش رایگاں جائے نہیں ملتا تو میں اس کو دوبارہ ڈھونڈ لیتا ہوں مری مٹّی میں آمیزش ہے جانے کس اذیّت کی میں کارِ منفعت میں بھی خسارا ڈھونڈ لیتا ہوں دیارِ عشق راضی ہو مری تعظیم پر ورنہ یہاں سے کوچ کرنے کا اشارا ڈھونڈ لیتا ہوں عداوت پر…

Read More

رخشندہ نوید ۔۔۔ ہر گھڑی موت کا ڈر نہیں چاہیے

ہر گھڑی موت کا ڈر نہیں چاہیے زندگی جا! یہ ٹرٹر نہیں چاہیے میں محبت کو دنیا میں پھیلاؤں گی مجھ کو بتلا! تجھے گر نہیں چاہیے ایک خالی سا رکھا ہے ڈبا کوئی مجھ کو شانوں پہ یہ سر نہیں چاہیے رقصِ بسمل کو محدود کیسے کروں مجھ کو اتنا بڑا گھر نہیں چاہیے پار دریا کسی نے پکارا مجھے ان پرندوں کو ہی پر نہیں چاہیے عشق میں جتنی جائز ہیں سفاکیاں ظلم کچھ اس سے بڑھ کر نہیں چاہیے رات ہو ، کہ ہو دن کا کوئی…

Read More

حمد باری تعالیٰ ۔۔۔۔ رخشندہ نوید

شمارِ رحمتِ ربیّ ہو وہ عدد نہیں ہے میں حمد کیسے لکھوں اتنا میرا قد نہیں ہے پناہ دیتا ہے وہ ذوالجلال والاکرام کہ اس جناب میں تفریقِ نیک و بد نہیں ہے وہ سب کی جھولیاں بھرتا ہے سب کا رب جو ہوا اُسی کا در ہے جہاں مانگنے کی حد نہیں ہے وہی ہے رازق و مالک‘ نہیں کوئی ذی روح کہ جس کے واسطے اللہ کی مدد نہیں ہے تجھی کو زیبا ہیں مالک تمام ذات و صفات الٰہ کیسے وہ ہو گا کہ جو صمد نہیں…

Read More

جمشید چشتی ۔۔۔ جو آگہی ہو تو پھر کچھ پہیلیاں بھی رہیں

جو آگہی ہو تو پھر کچھ پہیلیاں بھی رہیں دلہن کے گرد، دلہن کی سہیلیاں بھی رہیں سوادِ فکر میں تعمیر ہوں نئے امکاں درونِ شہر پرانی حویلیاں بھی رہیں بچھی رہے مرے آنگن میں دھوپ سی چھاؤں کپاس جیسی چمکتی چنبیلیاں بھی رہیں حیا کی ضو سے دمکتے رہیں ترے رخسار حنا کی لو سے دہکتی ہتھیلیاں بھی رہیں رہے یہ سیم و زرِ مہر و مہ بھی کاسے میں فلک کی جیب میں تاروں کی دھیلیاں بھی رہیں طلوعِ صبح کا ہو انتظار بھی جمشید شبِ ستم کی…

Read More

غلام حسین ساجد ۔۔۔ صاحبِ شام نے جب شروعات کی سیرِآفاق کی

صاحبِ شام نے جب شروعات کی سیرِآفاق کی میں نے بھی لو بڑھا دی ذرا دیر کو اپنے اوطاق کی لاکھ چاہا کہ اُس سے کنارہ کروں پر نہیں ہو سکا گفتگو اُس پری وش نے میری طبیعت کے مصداق کی طاقچے پر کتابِ صداقت دھری کی دھری رہ گئی اب سیاہی بھی تحلیل ہونے لگی بوسیدہ اوراق کی جس طرف دیکھیے آگ کا کھیل جاری ہے افلاک پر اب ضرورت نہیں ہے مرے مہربانوں کو چمقاق کی اپنے ورثے میں جو کچھ ملا تھا مجھے میں نے باقی رکھا…

Read More