دہکتی آگ کو جب خاک پر اتارا گیا ہمیں پکارا گیا اور بہت پکارا گیا ہمارا اور تمہارا ملال ایک سا ہے اِدھر چراغ بجھا اور اُدھر ستارا گیا بہت خلوص سے تونے عطا کیا تھا جو وہ ایک خواب بھی مجھ سے نہیں گزارا گیا عجیب جنگ یہاں پر لڑی گئی جس میں نہ کوئی زندہ بچا اور نہ کوئی مارا گیا مجھے خبر ہے وہ میری طرف بھی دیکھتا تھا مجھے خبر ہے مگر میں نہیں دوبارا گیا
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے یہی ہے رنگ دنیا کا، ابھی... -
میر تقی میر ۔۔۔ اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا بے دماغی سے با خطاب رہا ہو کے بے پردہ... -
مرزا غالب ۔۔۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا شوخیِ...