اندیشہ
۔۔۔۔۔۔
سنو، اے زندگی!
ٹھہرو،
وہ مجھ سے ملنے آیا ہے
مرے اندر بہت سی ان کہی پیاسی تمنائوں نے پھر سے سر اٹھایا ہے
کہیں یادوں کے ساحل پر پڑی کچھ سیپیوں کو میں نے کتنے پیار سے
چاہت کی ڈوری میں پرویا ہے
یہ ڈوری ٹوٹ نہ جائے
وہ مجھ سے روٹھ نہ جائے
مرے ہاتھوں سے دامن عشق کا پھر چھوٹ نہ جائے
دھنک رنگی فضائوں سے اترتی
دل دریچے پر صدا دیتی وہی مانوس سی آواز پہ دل کھنچتا جاتا ہے
کہیں وہ لوٹ نہ جائے
یہ سپنا ٹوٹ نہ جائے
سنو، اے زندگی! ٹھہرو
وہ مجھ سے ملنے آیا ہے
Related posts
-
اکرم سحر فارانی ۔۔۔ چھ ستمبر
ظُلمت کے جزیرے سے اَندھیروں کے رسالے آئے تھے دبے پاؤں اِرادوں کو سنبھالے دُشمن کے... -
حامد یزدانی ۔۔۔ سوالیہ اندیشے
سوالیہ اندیشے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس خزاں کی نئی اداسی کا رنگ کتنے برس پرانا ہے؟ زندگی مسکرا... -
خاور اعجاز ۔۔۔ امکان (نثری نظم) ۔۔۔ ماہنامہ بیاض اکتوبر ۲۰۲۳)
امکان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات کو پیدا ہونے والی تاریکی روشنی کا مطالبہ کرتے ہُوئے گھبرا جاتی ہے...