داغ دہلوی ۔۔۔ اب دل ہے مقام بے کسی کا

اب دل ہے مقام بے کسی کا یوں گھر نہ تباہ ہو کسی کا کس کس کو مزا ہے عاشقی کا تم نام تو لو بھلا کسی کا پھر دیکھتے ہیں عیش آدمی کا بنتا جو فلک مری خوشی کا گلشن میں ترے لبوں نے گویا رس چوم لیا کلی کلی کا لیتے نہیں بزم میں مرا نام کہتے ہیں خیال ہے کسی کا جیتے ہیں کسی کی آس پر ہم احسان ہے ایسی زندگی کا بنتی ہے بری کبھی جو دل پر کہتا ہوں برا ہو عاشقی کا ماتم…

Read More

خالد احمد ۔۔۔ دو غزلہ (وہ چرچا جی کے جھنجھٹ کا ہوا ہے)

وہ چرچا جی کے جھنجھٹ کا ہوا ہے کہ دل کا پاسباں کھٹکا ہوا ہے وہ مصرع تھا کہ اِک گل رنگ چہرہ ابھی تک ذہن میں اٹکا ہوا ہے ہم اُن آنکھوں کے زخمائے ہوئے ہیں یہ ہاتھ ، اُس ہاتھ کا جھٹکا ہوا ہے یقینی ہے اَب اِس دل کی تباہی یہ قریہ ، راہ سے بھٹکا ہوا ہے گلوں کے قہقہے ہیں، چہچہے ہیں چمن میں اِک چمن چٹکا ہوا ہے گلہ اُس کا کریں کس دل سے، خالد! یہ دل کب ایک چوکھٹ کا ہوا ہے…

Read More

رضی اختر شوق ۔۔۔ کیسے جیئیں قصیدہ گو، حرف گروں کے درمیاں

کیسے جیئیں قصیدہ گو، حرف گروں کے درمیاں کوئی تو سر کشیدہ ہو، اتنے سروں کے درمیاں ایک طرف میں جاں بہ لب ، تارِ نَفس شکستنی بحث چھڑی ہوئی اُدھر، چارہ گروں کے درمیاں ہاتھ لئے ہیں ہاتھ میں، پھر بھی نظر ہے گھات میں ہمسفروں کی خیر ہو، ہمسفروں کے درمیاں اُس کا لکھا کچھ اور تھا، میرا کہا کچھ اور ہے بات بدل بدل گئی، نامہ بروں کے درمیاں جامِ سفال و جامِ جم، کچھ بھی تو ہم نہ بن سکے اور بکھر بکھر گئے ، کُوزہ…

Read More

شہرت بخاری ۔۔۔ ہر چند سہارا ہے ، تیرے پیار کا دل کو

ہر چند سہارا ہے ، تیرے پیار کا دل کو رہتا ہے مگر ، ایک عجب خوف سا دل کو وہ خواب کہ دیکھا نہ کبھی ، لے اڑا نیندیں وہ درد کہ اٹھا نہ کبھی ، کھا گیا دل کو یا سانس کا لینا بھی ، گذر جانا ہے جی سے یا معرکہِ عشق بھی ، اک کھیل تھا دل کو وہ آئیں تو حیران ، وہ جائیں تو پریشان یارب کوئی سمجھائے ، یہ کیا ہوگیا دل کو سونے نہ دیا شورش ہستی نے گھڑی بھر میں لاکھ…

Read More

مجید امجد ۔۔۔ التماس

التماس مری آنکھ میں رتجگوں کی تھکاوٹ مری منتظر راہ پیما نگاہیں مرے شہرِ دل کی طرف جانے والی گھٹاؤں کے سایوں سے آباد راہیں مری صبح تیرہ کی پلکوں پہ آنسو مری شامِ ویراں کے ہونٹوں پہ آہیں مری آرزوؤں کی معبود! تجھ سے فقط اتنا چاہیں، فقط اتنا چاہیں کہ لٹکا کے اک بار گردن میں میری چنبیلی کی شاخوں سی لچکیلی بانہیں ذرا زلفِ خوش تاب سے کھیلنے دے جوانی کے اک خواب سے کھیلنے دے

Read More

سعادت حسن منٹو ۔۔۔ الو کا پٹھا

الو کا پٹھا قاسم صبح سات بجے لحاف سے نکلا اور غسل خانے کی طرف چلا۔ راستے میں، یہ اس کو ٹھیک طور پر معلوم نہیں، سونے والے کمرے میں، صحن میں یا غسل خانے کے اندر اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ کسی کو ’’اُلو کا پٹھا‘‘ کہے۔ بس صرف ایک بار غصے میں یا طنزیہ انداز میں کسی کو ’’اُلو کا پٹھا‘‘ کہہ دے۔ قاسم کے دل میں اس سے پہلے کئی بار بڑی بڑی انوکھی خواہشیں پیدا ہو چکی تھیں مگر یہ خواہش…

Read More