اکبر الہ آبادی

بحثیں فضول تھیں، یہ کھلا حال دیر میں افسوس! عمر کٹ گئی لفظوں کے پھیر میں ………………………….. انتخابِ اکبر الہ آبادی تصیح ترتیب: ڈاکٹر صدیق الرحمٰن قدوائی مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، دریا گنج، دہلی جون ۱۹۷۳ء

Read More

اکبر معصوم ۔۔۔۔ خود سے نکلوں بھی تو رستہ نہیں آسان مرا

خود سے نکلوں بھی تو رستہ نہیں آسان مرا میری سوچیں ہیں گھنی، خوف ہے گنجان مرا ہے کسی اور سمے پر گزر اوقات مری دن خسارہ ہے مجھے، رات ہے نقصان مرا میرا تہذیب و تمدن ہے یہ وحشت میری میرا قصہ، مری تاریخ ہے نسیان مرا میں کسی اور ہی عالم کا مکیں ہوں پیارے! میرے جنگل کی طرح گھر بھی ہے سنسان مرا دن نکلتے ہی مرے خواب بکھر جاتے ہیں روز گرتا ہے اسی فرش پہ گلدان مرا مجھ کو جس ناؤ میں آنا تھا کہیں…

Read More

اکبر الہ آبادی

عشق کے فن میں ہے اکبر کا بھی درجہ عالی عیب کچھ اُس میں نہیں ضبط نہ کرنے کے سوا

Read More

اکبر الہ آبادی….. یار نے کچھ خبر نہ لی، دل نے جگر نے کیا کیا

یار نے کچھ خبر نہ لی، دل نے جگر نے کیا کیا نالۂ شب سے کیا ہوا، آہِ سحر نے کیا کیا دونوں کو پا کے بے خبر، کر گئے کام حسن و عشق دِل نے ہمارے کیا کیا، اُن کی نظر نے کیا کیا صاحبِ تاج و تخت بھی موت سے یاں نہ بچ سکے جاہ و حشم سے کیا ہوا، کثرتِ زَر نے کیا کیا کھل گیا سب پہ حالِ دل، ہنستے ہیں دوست برملا ضبط کیا نہ رازِ عشق، دیدۂ تر نے کیا کیا اکبرِ خستہ دِل…

Read More