علی اصغر عباس ۔۔۔ شبِ سیاہ یہ کس کوکھ سے جنی ہوئی ہے

شبِ سیاہ یہ کس کوکھ سے جنی ہوئی ہے
بڑے غرور سے جو یہ بنی ٹھنی ہوئی ہے

وہ دُور طاق میں رکھے دیے کی روشنی بھی
یہاں تو دھوپ سے بڑھ کر ہی کچھ غنی ہوئی ہے

یہ کس ستارے پہ لادا گیا ہے نور کا بوجھ
جو کہکشانوں پہ طاری یہ جانکنی ہوئی ہے

کسی نے رینگتے دریا پہ کیا چراغ دھرا
بھنور پہ کوئی مصیبت سی اب بنی ہوئی ہے

پرندے اور مسافرتمام ٹوٹ پڑے
ہمارے پیڑ کی چھاؤں ہی اب گھنی ہوئی ہے

دریچے کھول کے رکھیں مکیں مکانوں کے
ہواے تازہ جو یہ حبس میں دھنی ہوئی ہے

سرابِ دشت میں اک وحشتِ  جنون کے ساتھ
ملا تو سمجھا کہ حیرت سے یہ چھنی ہوئی ہے

پروں کے ساتھ جو تتلی کو اس نے ڈھانپ لیا
تو پھول ایسی حسیں اور منحنی ہوئی ہے

ہمارے  درمیاں جو طے ہوا خموشی سے
یہ گفتنی سے تو بہتر نگفتنی ہوئی ہے

ابھی ابھی تو میں جنگل سے ہوکے آیا ہوں
زمستاں اور بہاروں کی واں ٹھنی ہوئی ہے

میں حسن جھیل میں غرقاب ہوگیا اصغر
رداے نور جو سر پر مرے تنی ہوئی ہے

Related posts

Leave a Comment