زور سے میرے بھائی دے آواز
تا کہ سب کو سنائی دے آواز
اب مرا لوٹنا نہیں ممکن
چاہے ساری خدائی دے آواز
کتنی حساس ہیں مری آنکھیں
مجھے سن کر دکھائی دے آواز
لاؤ رختِ سفر مرا کہ مجھے
پربتوں کی ترائی دے آواز
یہ ترے کان بج رہے ہیں حنیفؔ
یہ جو اُس کی سنائی دے آواز