علی اصغر عباس … عدم آباد!

عدم آباد!

میں نے زندگی کے جھروکے سے
جھانک کر دیکھا تو
حیات
ہمیشگی کا لباس پہنے
عدم آباد کے صحن میں
ابد کے بے پایاں پیڑ کی شاخ پہ
دوام کی پینگھ جھول رہی تھی
دور لاکھوں کروڑوں میل کے فاصلے پر
خاک کے قضا رسیدہ وجود
غرور میں تنی گردنوں کے بوجھ سے آزاد
مٹی کا غبار ہو چکے تھے
جاودانی کا زعم
اجل کے کیڑے نے کھا لیا تھا
نوشتہ تقدیر کے حروف اُڑچکے تھے
ثبات کا نیا شمارہ
انسانیت کے گلیز پیپر پہ
پوری آب و تاب سے شائع ہو چکا تھا
سرورق
یزداں کی مسکراتی تصویر سے مزین تھا
ہاکر فرشتوں کی چیختی صدائیں گونج رہی تھیں
مگر خرید کر پڑھنے والا کوئی نہیں تھا
اکیلا پڑھا لکھا دانشور
ابلیس
اپنے شاگردوں کے ساتھ
وعدے کی تکمیل پر نازاں
جہنم کے گڑھے میں
دوزخیوں کی کلاس لے رہا تھا
فرشتوں کی قطاریں
جنت کا گھنٹہ بجا رہی تھیں!

Related posts

Leave a Comment