صدام ساگر ۔۔۔ عہدِ حاضر کا ایک مستند نام ۔۔۔بشری رحمٰن

عہدِ حاضر کا ایک مستند نام  ۔۔۔بشری رحمٰن

بشری رحمن جن کا شمار پاکستان کی اُن کہنہ مشق لکھاریوں میں ہوتاہے جو ایک طویل عرصے سے بے تکان ،بے دھڑک مسلسل لکھ رہی ہیں۔ انہیں زمانہ طالبِ علمی سے کلامِ اقبال کو زبانی یاد کروانے والے ان کے والدِ گرامی عبدالرشید شاہی طبیب جبکہ والدہ نصرت رشید اپنے وقت کی معروف شاعرہ تھیں۔ کہتے ہیں کہ حرف اور الفاظ بشری رحمن کے آگے یوں ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں گویا وہ ان کے سر کا تاج ہیں۔بشری رحمٰن ۲۹ اگست ۱۹۴۴ء کو بہاولپور میں پیدا ہوئیں۔ بہاولپور بڑا زرخیز خطہ ہے جس کے خمیر میں کیسے کیسے انمول نگینے گوندھے گئے جن میں سے ایک نایاب نگینہ بشری رحمٰن جس نے علم کے ماحول میں لفظ اور حرف کی حرمت کو استعمال کرتے ہوئے آنکھ کھولی۔
بشری رحمٰن کی جہاں والدہ شاعرہ تھیں وہیں ان کی ایک بہن فرحت بھی شاعرہ تھیں۔اپنے شعری مجموعہ’’صندل میں سانسیں جلتی ہیں‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتی ہیں کہ’’مجھے شعر سننا اور شعر کہنا بچپن ہی سے اچھالگنے لگا تھا کیونکہ میرے گھر میں پہلے سے دو شاعرات موجود تھیں، بہت کچی عمر میں، یہ پکی سی بات میرے ذہن میں بیٹھ گئی، کہ اس گھر میں اپنا آپ منوانے کے لیے کوئی منفرد راستہ اختیار کرنا ہوگا، اُس عمر میں تو سارا جہان گھر کے اندر ہی نظر آتا ،منفرد راستہ نثر نگاری ہی کا تھا۔‘‘ انہوں نے بچپن ہی سے کہانیاں اور افسانے لکھنے شروع کر دئیے تھے۔ ’’لگن‘‘،’’پیاس‘‘،’’شاہکار‘‘،’’لازوال‘‘،’’عشق عشق‘‘،’’دل اور دستک‘‘ اپنے  دور کے شاہکار ناول تھے۔ ’’چارہ گر‘‘ ان کی شادی سے قبل لکھا ہُوا ناول تھا یہ ناول انہوں نے سترہ برس کی عمر میں لکھا۔ جو ایک رومانٹک ناول تھا جس میں اخلاقیات کو سر فہرست رکھا گیا ، ان کی دیگر تصانیف میں ’’بت شکن‘‘،’’چپ‘‘،’’پشیمان‘‘،’’خوبصورت‘‘،’’قلم کہانیاں‘‘،’’چاند سے نہ کھیلو‘‘،’’دانا رسوئی‘‘،’’بے ساختہ‘‘،’’کس موڑ پہ ملے ہو‘‘، اللہ میاں جی‘‘،’’تیرے سنگِ در کی تلاش‘‘اور مولانا ابوالکلام آزاد‘‘ (ایک مطالعہ) ودیگر شامل ہیں۔ ان کے کئی ناولوں کو ٹیلی وژن چینلز نے ڈرامائی تشکیل دی۔ ’’پیاس‘‘ ۔۔۔ان کا یہ ناول خونِ جگر میں انگلیاں ڈبو کر لکھے گئے پیاسے جذبوں کی داستان ہے جس میں حقیقت کا ہر رنگ دکھائی دیتا ہے۔ اس ناول کے حوالے سے مرزا ادیب لکھتے ہیں ’’بشری رحمن کی کہانیوں کے مطالعہ کے بعد بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ وہ کہانی کہنے کا بڑا اچھا بڑا مئوثر اور خوبصورت ڈھنگ جانتی ہیں اور یہ کسی بھی تخلیق کار کی بڑی اور اہم خوبی تصور کی جاتی ہے۔‘‘
بشری رحمن نے سماج کے منفی رویوں اور مکروہ رسم و رواج کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی عورت کی بے مثل قربانیوں کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا، جس سے وہ ایک گداز اور درد مند دل رکھنے والی عورت معلوم ہوتی ہیں جس نے عورت کی عصمت، عزت اور وقار کے لیے قلمی جہاد کیا، جو حقیقت میں ادب برائے زندگی اور زندگی برائے بندگی ہے۔ ’’نسائی ادب اور تانیثیت‘‘ اس کتاب میں اکرم کنجاہی اپنی تحقیق و تنقید میں رقم طراز ہیں کہ’’بشری رحمن ایک ایسی مصنفہ ہیں جنھوں نے عورت کو خود آگہی اور خود شناسی کا درس دیا۔ ان کی تحریروں سے کوئی نہ کوئی سبق ضرور ملتا ہے۔ کہیں عبرت کی شکل میں کہیں زندگی جینے کا سلیقہ۔ کہیں خود شناسی ملتی ہے اور کہیں مد مقابل کو سمجھنے کی حس متحرک ہوتی ہے۔‘‘
ممتاز و مایہ ناز اور نامور مصنفہ، کالم نویس، تمثیل نگار، شاعرہ اور سیاستدان بشری رحمن نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے صحافت کی سند حاصل کی۔ بعدازاں انکی شادی صنعتکار میاں عبدالرحمن سے ہوئی۔وہ اپنے شوہر کی بہت فرماں بردار تھیں ،نامور ہدایتکار، فلم نگار علی سفیان آفاقی سے ایک انٹرویو میں بتاتی ہیں کہ’’میں نے آج تک اپنے شوہر کے سامنے اُونچی آواز میں بات نہیں کی۔‘‘بشری رحمن نے ایک طویل مدت تک ’’نوائے وقت‘‘ میں ’’چادر، چار دیواری اور چاندنی‘‘ کے عنوان سے وطنِ عزیز پاکستان سے گہرے نظریاتی لگاؤ اور قومی سطح پر شعور وآگہی کے فروغ کے جذبے سے سرشار ہو کر ان گنت بصیرت افروز کالم لکھے۔ ’’نوائے وقت‘‘ سے قبل وہ روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں بھی کالم لکھتی رہیں ،جبکہ زندگی کے آخری ایام میں ان کے کچھ کالم روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ میں بھی شائع ہوئے۔میرے خیال میں کچھ لوگ بول سکتے ہیں لیکن لکھ نہیں سکتے اور کچھ لکھ سکتے ہیں لیکن بول نہیں سکتے اور بشری رحمن میں یہ دونوں خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ان کا سیاسی سفر ۱۹۸۳ء میں شروع ہوا اور صوبائی اسمبلی پنجاب کی تین مرتبہ رکن منتخب ہوئیں۔ اسمبلی ہو یا ادبی تقریبات وہ ہمیشہ نڈر ہو کر دلائل پہ مبنی بات کرتیں، وہ ہمیشہ کہا کرتیں کہ’’ہم مجید نظامی صاحب کے زیرِ سایہ ’’دورِ نظامی‘‘ میں پل رہے ہیں اس لیے ہم بھی سچ کہتے ڈرتے نہیں۔‘‘بشری رحمن ایک بہادر، نیک سیرت اور بڑے دل والی خاتون تھیں۔ وہ اپنے شیریں بیاں لہجے اور حسنِ قلم کی بدولت سب میں مقبول تھیں، وہ کتاب کے دور میں بہت معتبر لکھنے والوں میں شامل ہیں۔انہیں عمدہ تخلیقی ہنر مندی کی بدولت ایک باکمال اور معتبر ادبی و صحافتی شخصیت کے طور پر خوب پذیرائی اور شہرت حاصل ہوئی۔ چنانچہ انہیں ان کی اعلیٰ ، گراں قدر اور نمایاں ادبی و صحافتی خدمات کے اعتراف میں ۲۰۰۴ء میں ساحر لدھیانوی گولڈ میڈل، اور ۲۰۰۷ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے صدارتی اعزاز ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا۔ جبکہ ان کو ۲۰۱۲ء میں ادیب انٹرنیشنل لدھیانہ کی طرف سے ’’ملکہ ٔسخن‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا اور آبروئے صحافت مجید نظامیؒ نے ان کی تقریروں اور تحریروں سے متاثر ہو کر انہیں ’’بلبلِ پاکستان‘‘ کے خطاب سے نوازا۔بقول شاعر:

گزاری عمر ہم نے شعر گوئی کی ریاضت میں
کسی کو مفت میں تھوڑی یہاں اعزاز ملتے ہیں

’’صندل میں سانسیں جلتی ہیں‘‘ محترمہ بشری رحمن کا مجموعہ غزل اور نظم دونوں پر مشتمل ہے۔ جس میں انکی غزلیں اور نظمیں روایتی نہیں بلکہ جدت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ اُن کے اشعار میں بڑی فکر اور ندرتِ خیال پائی جاتی ہے جس نے اُنہیں اُن کی ہم عصر شاعرات میں منفرد و ممتاز مقام عطا کر دیا ہے۔اپنے اس شعری مجموعہ کے پیش لفظ میں لکھتی ہیں کہ’’میں نے کب دعوی کیا کہ میں شاعرہ ہوں! بس شاعرانہ ماحول میں آنکھ کھولنا گویا جرم سا ہو گیا ۔امی جان گنگنا کر شعر کہتا کرتی تھیں، یوں پالنے ہی میں سُر میں ڈوبا کوئی نغماتی جمال میرے اندر اُتر گیا، شاعرہ ماں کے دودھ کی تاثیر تھی، میں نے گڑیا کی جگہ قلم پکڑ لیا۔ ‘‘انہوں نے علامہ امین خیالؒ کے کہنے پر ماہیا نگاری کی صنف میں بھی طبع آزمائی کی۔ ان کا ایک اشاعتی ادارہ بھی تھا’’وطن دوست‘‘ یہ تو اشاعتی ادارہ کی بات ہے وہ خود بھی بڑی وطن دوست تھیں ان سے ملنے والا ہر کوئی ان کی شخصیت کا معترف ہو جاتا ۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

یہ اُداس اُداس شامیں مجھے دے رہی ہیں طعنے
وہ کہاں ہے جس نے تیرے بڑے ناز تھے اُٹھائے
٭
کسی مانوس سی دستک کو ترستے ہیں کواڑ
شہر میں یوں تو بہت اپنی شناسائی ہے
٭
اظہارِ محبت میں بڑی دیر لگا دی
اک روز مجھے آ کے بتا کیوں نہیں دیتے

آپا بانو قدسیہ کے بعد ہم انہیں آپا بشری رحمن کہنے لگ گئے۔ ان سے میرا پہلا تعارف افتخار مجازمرحوم اور پھر اُستاد محترم ابصار عبدا لعلی مرحوم کے توسط سے ہُوا۔ میرے پہلے پنجابی شعری مجموعے’’بھلیاں راہواں‘‘ کا انتساب بھی ان کے منہ بولے بھائی علامہ امین خیالؒ اور آپا بشری رحمن کے نام ہے۔ جبکہ میرے پہلے اُردو شعری مجموعے’’ساگر کی لہریں‘‘ کا دیباچہ بھی آپا بشری رحمن نے لکھا ہے جس کی مالی مشکلات کے باعث اشاعت ممکن نہ ہو سکی، جس پر وہ مجھ سے بہت نالاں تھیں،بہرحال ان سے وابستہ بہت سی یادیں اور باتیں ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ ہیں جنہیں ایک مضمون میں قلمبند کرنا یقینا ناممکن ہے۔ عہدِحاضر کا ایک مستند نام بشری رحمن کورونا کے باعث المناک وفات سے ادب اور سیاست کی ایک خوشمنا علامت ۶فروری۲۰۲۲ء کی سحر ہم سے جدا ہو گیا۔انہوں نے علم وادب اور تاریخِ صحافت کے لیے جو خدمات سر انجام دیں، اُن کے لیے انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی وفات سے قبل بھارت میں لتا کے انتقال پرہمارا الیکٹرونک میڈیا بہت تڑپا، بلاشبہ لتا بڑی گلوکارہ تھیں لیکن بشری رحمن بھی ایک نابغہ روزگار شخصیت تھی جن کی رحلت پر نہ ہی کوئی الیکٹرونک میڈیا تڑپااور نہ ہی پرنٹ میڈیا کو خیال آیا۔ سوائے اعتبار ساجد کے ان اشعار کے اور کیا کہا جا سکتا ہے:

اُن کا مقصد ہے تجارت، جو ادب بیچتے ہیں
لکھنے والوں کی مشقت کا صلہ کیا دیں گے
میتیں آج ادیبوں کی اُٹھاتے ہیں جو لوگ
کل کتابوں کے جنازے کو نہ کاندھا دیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment