نعمتِ دنیا ہے پائی ہم نے جن کے نام پر
بات ٹھہری ہے سرِ کوثر بھی ان کے جام پر
کچھ منور اور بھی پاتا ہوں اپنے دل کو میں
لگ گیا ہوں جب سے نعتِ مصطفیٰ کے کام پر
شام ٹھنڈی چاندنی اور صبحِ طیبہ پُرجمال
میں قصیدہ صبحِ طیبہ پر لکھوں یا شام پر
یادِ طیبہ عاشقوں کو اس قدر مرغوب ہے
ٹوٹ کر گرتی مگس ہے جیسے میٹھے آم پر
فرقتِ طیبہ میں گریہ سے اِسے فرصت نہیں
آنکھ میری روئے کیوں دنیا ترے آلام پر