عقیل اختر … امتحان

امتحان مجھے اک امتحاں درپیش ہے اور میں پریشاں ہوں نہیں ایسا نہیں کہ میں نے سورج کو جھکا کر روشنی کے زاویے پابند کرنے ہیں نہیں ایسا نہیں کہ چاند تارے توڑنے کو اس فلک کے پار جاکر کہکشاں کو چھو کے آنا ہے نہیں ایسا نہیں کہ رستے دریا کے بدل کر اس زمیں کو اک سمندر اور دینا ہے نہ ہی ہستی کے مجھ کو پار جا کر معرفت کے راز پانے ہیں نہ مجھ کو اُس کے جلووں سے سیہ شب جگمگانی ہے نہ میں نے…

Read More

عقیل اختر … مرنے والوں کے اشارے جو بتا کر گئے تھے

مرنے والوں کے اشارے جو بتا کر گئے تھے لفظ تاریخ کے پہلے ہی صدا کر گئے تھے اُس نے جو بام پہ آ جانے کی زحمت کی تھی ہم اناگیر بھی دیوار گرا کر گئے تھے زیرِلب جلتے ہوئے شکوے تھے کتنے لیکن روبرو یار کے آواز بجھا کر گئے تھے ہم کو معلوم تھا کہ جنگ یہی آخری  ہے وحشتِ رخت  سے دامن کو چھڑا کر گئے تھے ہم پہ تھی سہل ہوئی دار و رسن کی مشکل اسمِ منصور کا تعویذ کرا کر گئے تھے

Read More

نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم … عقیل اختر

نعمتِ دنیا ہے پائی ہم نے جن کے نام پر بات ٹھہری ہے سرِ کوثر بھی ان کے جام پر کچھ منور اور بھی پاتا ہوں اپنے دل کو میں لگ گیا ہوں جب سے نعتِ مصطفیٰ کے کام پر شام ٹھنڈی چاندنی اور صبحِ طیبہ پُرجمال میں قصیدہ صبحِ طیبہ پر لکھوں یا  شام پر یادِ طیبہ عاشقوں کو اس قدر مرغوب ہے ٹوٹ کر گرتی مگس ہے جیسے میٹھے آم پر فرقتِ طیبہ میں گریہ سے اِسے فرصت نہیں آنکھ میری روئے کیوں دنیا ترے آلام پر

Read More