عقیل اختر … مرنے والوں کے اشارے جو بتا کر گئے تھے

مرنے والوں کے اشارے جو بتا کر گئے تھے
لفظ تاریخ کے پہلے ہی صدا کر گئے تھے

اُس نے جو بام پہ آ جانے کی زحمت کی تھی
ہم اناگیر بھی دیوار گرا کر گئے تھے

زیرِلب جلتے ہوئے شکوے تھے کتنے لیکن
روبرو یار کے آواز بجھا کر گئے تھے

ہم کو معلوم تھا کہ جنگ یہی آخری  ہے
وحشتِ رخت  سے دامن کو چھڑا کر گئے تھے

ہم پہ تھی سہل ہوئی دار و رسن کی مشکل
اسمِ منصور کا تعویذ کرا کر گئے تھے

Related posts

Leave a Comment