………اسلام ہے آزاد … نوید صادق

میرا پاکستان
………

….اسلام ہے آزاد
……….

ہم مسلمان بات تو کرتے ہیں، ملت کی، اتحاد و اتفاق کی اور بٹ جاتے ہیں ٹولیوں میں، فرقوں میں۔ ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہیں، ایک ٹولی دوسری کو غلط اور دوسری تیسری کو غلط سمجھتی ہے۔ اعلانات ہوتے ہیں۔ فتوے جاری کیے جاتے ہیں۔ خیر یہ سب تو پہلے سے ہماری زندگی کا حصہ ہے لیکن تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ہم جو آئے دن لمبی لمبی تقریریں کرتے رہتے ہیں، اُمتِ مسلمہ۔۔۔ تو کیا ایک امت،ایک ملت، جس طور ہم لگے ہوئے ہیں ، مستحکم ہو سکتی ہے۔ اس سوال کا جواب کون دے گا؟ کوئی نہیں دے سکتا کہ ہم اپنی زبان سے ادا ہونے والے جملوں کا مطلب سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ جب ہم خود اپنے کہے کے مفہوم سے ناآشنا ہیں تو ہم دوسروں سے کس طرح یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہماری بات سنیں گے یا سمجھیں گے۔ آج اندازہ لگا ئیں کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کی کل تعداد کتنی ہے؟ پوری دنیا میں کتنے مسلم ممالک ہیں؟ پوری مسلم دنیا میں کتنے ممالک ایسے ہیں جو اگر چاہیں تو ہر ممکن کو ناممکن بنا سکتے ہیں؟ ان سوالات کے جوابات تو بہت آسان ہیں۔ شاید ہمارے ہاں ایک عام پڑھا لکھا انسان بھی ان سوالوں کے تشفی بخش جواب دے دے، لیکن مسئلہ محض سوال و جواب تک نہیں ، بل کہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر ان سوالوں کی روح کو سمجھنے کا ہے۔ اور ان سوالوں کی روح کون سمجھے گا؟ ہم میں سے بہت سے تو ایسے ہیں کہ جنھیں روزی روٹی کے دھندوں ہی سے فرصت نہیں ملتی اور جو اس روزی روٹی کی فکر سے باہر ہیں، ان کے دیگر مشاغل انھیں موقع فراہم نہیں کرتے کہ وہ اس قسم کے سوال و جواب پر اپنا قیمتی وقت صرف کریں۔ ایسا نہیں کہ کسی نے کبھی اس عظیم جدوجہد کی کوشش نہیں کی، کوششیں بہت ہوئیں لیکن وہ آٹے میں نمک کے برابر ثابت ہوئیں۔ اُن آوازوں پر لبیک نہیں کہا گیا۔ پھر وہ جنھیں یہ خدشہ تھا کہ اگر ہم کہیں کسی بہانے ایک ہو گئے تو اُن کی سالمیت کو خطرہ ہوگا، ہمارے راستے کی دیوار بن گئے۔ اور جب انھیں یہ احساس ہوا کہ وہ بزورِ بازو ہمیں نہیں روک سکتے تو انھوں نے ہمیں زندگی کرنے کے ایسے ایسے ڈھب سکھا دیے کہ الامان۔ ہمیں زندگی کی بھول بھلیوں میں الجھا دیا گیا۔ لیکن ہم کسی کو برا کیوں کہیں، ہم نے ان نئی آوازوں پر لبیک ہی کیوں کہا۔ کہتے ہیں کہ دوسروں کو برا کہنے کی بجائے اپنی خامیوں کی طرف توجہ دینا زیادہ احسن ہے۔ اور کامیابی کا راستا بھی یہی ہے کہ انسان غلطی کے بعد اس غلطی کا احساس کرے اور بعدازاں اپنی خامیوں، کوتاہیوں کا ازالہ کرے۔
مسلم ممالک عجیب دہری سیاستوں کا شکار ہوتے آئے ہیں۔ ہمارے ذاتی مفادات ہمیں ایک ساتھ مل بیٹھنے نہیں دیتے۔ سعودی عرب کہ ہمارے لیے ازحد مقدس ملک ہے، ہمارے سامنے ہے۔ سعودی عرب چاہے تو پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک جھنڈے تلے جمع کر سکتا ہے۔ قدرت نے اس ملک کو بے بہا وسائل سے نوازا ہے، لیکن کیا ہے کہ ہمارے سعودی حکمرانوں کو کبھی ذاتی عیش و آرام سے فرصت ہی نہیں ملی کہ وہ مسلم اُمہ کے اتحاد کی بابت غور فرمائیں۔ سعودی شیوخ مسلم ممالک کی بجائے ہمیشہ مغرب کو اہمیت دیتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ غیرمسلموں سے کوئی تعلق نہ رکھا جائے لیکن اپنا سب کچھ ان کے ہاتھ دے دینا بھی تو عقل مندی نہیں۔ ایران مسلم ممالک میں ایک اہم طاقت ور ملک ہے۔ جب امریکہ اور اس کے حامیوں کو محسوس ہوا کہ دن بدن مضبوط ہوتا ایران اُن کے مستقبل کے لیے ایک خطرہ ہے تو اُنھوں نے ایران پر معاشی پابندیاں نافذ کر دیں۔ اور ایران پوری دنیا سے کٹ کر رہ گیا۔ ایسے میں کتنے مسلم ممالک نے اقوامِ متحدہ اور امریکہ کے اس فعل کی مذمت کی۔ ہلکی پھلکی، دبی دبی آوازیں۔۔۔ لیکن نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے۔ گذشتہ دنوں جب ان پابندیوں کے اٹھائے جانے کے امکانات نظر آئے تو اسرائیل اور کسی حد تک فرانس نے معاملات کو تکمیل تک نہ پہنچنے دیا۔ اب بات چیت کا ایک دور پھر چل رہا ہے، امریکی اور ایرانی نمائندے حالات میں بہتری کی توقع رکھتے ہیں لیکن۔۔۔۔ عراق کا مسئلہ بھی خوب رہا۔ پہلے تو عراق اور ایران نے ایک طویل جنگ میں ایک دوسرے کو کمزور کیا۔ اور پھر اس جنگ کے بعد رہی سہی کسر امریکہ نے پوری کر دی۔ عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔افغانستان میں پہلے روس نے جارحیت کی تو بعدازاں امریکہ نے اس خطے میں اپنے قدم جمانے کے لیے اس کا ستیاناس کر ڈالا۔ اب عراق اور افغانستان میں کٹھ پُتلی حکومتیں قائم ہیں جن کا کام محض امریکہ کے اشاروں کو سمجھنا اور اُن پر عمل کرنا ہے۔ شام میں جو قیامت کا سماں ہے، اس کے پیچھے بھی امریکی عزائم کارفرما ہیں۔ دیگر عرب ریاستوں میں بھی آئے دن کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا رہتا ہے کہ کسی بہتری کی قطعی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔شام میں باغیوں کے کارناموں سے سب واقف ہیں لیکن حکومت بھی ان سے پیچھے نہیں۔اچھا مزے کی بات یہ ہے کہ مختلف گروہ جو مختلف اسلامی ممالک میں حکومتوں کے خلاف کام کر رہے ہیں، ان سب کے نام میں اسلام، مسلمان وغیرہ بہت نمایاں ہیں۔ ان دہشت گرد جماعتوں کے منشورات بھی اتنے عمدہ ہیں کہ شاید فرشتے بھی ایک دفعہ تو ان کو دیکھ کر چکرا جائیں کہ یہ کیا، یہ لوگ تو کہیں خلافت کا قیام چاہتے ہیں تو کہیں اسلامی شریعت کا نفاذ۔ لیکن ان کے کرتوت ایسے کہ شیطان بھی شرما جائے اور توبہ کر لے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی ایسی ہی نام نہاد تنظیموں کی زد پر ہے۔ مسلم ممالک ایسی جماعتوں یا دہشت گرد گروپوں کو ختم کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو پائے۔ اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اشرافیہ میں ان کے حامی ہر جگہ موجود ہیں اور وہ کہیں ڈھکے چھپے لفظوں میں تو کہیں کھلم کھلا ایسی جماعتوں کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن ایک بات شاید ہم سب جانتے ہیں کہ یہ لوگ مذہب کو محض ایک ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ایسے میں سب سے اہم کردار علماءکا بنتا ہے لیکن وہ بے چارے تو خود فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور چھوٹے چھوٹے فروعی مسائل کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے پر فتوے اور حکم جاری کرنے میں مصروف ہیں۔ تو اب ہم ان سے کیا امید رکھیں کہ ان کے نزدیک آزادی کا مفہوم بڑا محدود اور جامد ہے۔۔آج مسلم اُمہ کے اتحاد کے خواب دیکھنے اور دکھانے والے اس طرف توجہ دینے سے قاصر ہیں۔ بقول حکیم الامت علامہ محمد اقبال:
مُلا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
نادان سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ دن

۱۳ جنوری ۲۰۱۴ء

Related posts

Leave a Comment