بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا

میرا پاکستان

۔۔۔۔۔۔۔

” بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو ایران کے سابق صدر احمدی نژاد کو بھیڑیے کی کھال میں بھیڑیا اور موجودہ صدر حسن روحانی کو بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا قرار دے کر اپنی دانست میں مغربی دنیا کو خبردار کر چکے ہیں کہ ایران ایک خطرناک ملک ہے لہٰذا اس خطرناک ملک کو خطرناک حد تک وسیع اختیارات سے دور رکھنا ہی بہتر ہے۔ اسرائیل اس معاہدہ کو ایک تاریخی غلطی قرار دے رہا ہے۔ لیکن اِس کا کیا کیا جائے کہ امریکہ سمیت دنیا کی چھ بڑی طاقتیں ایران کے ساتھ جاری تناو¿ کو ختم کرنے کی خواہاں ہیں۔امریکی ماہرین کے مطابق ایران سے معاہدہ کے بعد دنیا مزید محفوظ ہو جائے گی۔ امریکی حکام بار بار اسرائیل کو یقین دہانیاں کروا رہے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کیے جائیں گے، اِس کی سالمیت پر آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔ اسرائیل کے قیام اور اس کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو کھلتا ہے کہ یہ ملک ہمیشہ امریکہ ، فرانس اور برطانیہ کے زور پر آگے بڑھا ہے۔برطانیہ تو اس صیہونی ریاست کے قیام کا ذمہ دار ہے۔اپنے شہریوں کو یہودی شر سے محفوظ رکھنے کے لیے برطانیہ نے فلسطین کے علاقے میں نہ صرف یہ کہ یہودی ریاست کے قیام کا منصوبہ بنایا بل کہ ان علاقوں پر قبضہ کر کے یہودیوں کے حوالے کر دیا کہ لو، یہودی ریاست’ اسرائیل‘ بنا لو۔بعدازاں فلسطینیوں کے قتلِ عام، فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضے اور دیگر عرب ممالک پر حملوں میں برطانیہ اور امریکہ کا آشیر باد اسرائیل کے ساتھ رہا۔
اسرائیل بالخصوص پوری دنیاکے مسلمانوں اور بالعموم دیگر تمام مذاہب کے ماننے والوں کا دشمن ہے۔ اسرائیل کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ وہ کسی کا دوست نہیں۔اسرائیل کا قیام اور بعدازاں اس میں توسیع سراسر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مبنی ہے۔قتل و غارت گری شروع دن سے اسرائیلی حکمرانوں کا وطیرہ رہے ہیں۔ سرزمینِ فلسطین پر قبضہ کرکے بنائی گئی مشرق وسطیٰ کی صیہونی ریاست” اسرائیل“ کے توسیعی عزائم بہت خطرناک ہیں۔ اس ریاست کے قیام کے لیے جو نقشہ ترتیب دیاگیا اُس میں دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک کا سارا علاقہ شامل ہے۔ اس حساب سے مصر کا دریائے نیل سے مشرق کا علاقہ بشمول پورٹ سعید، مکمل فلسطین، اُردن، لبنان، شام، عراق کا دو تہائی علاقہ اور سعودی عرب کے ایک چوتھائی علاقہ کو اس ریاست کا حصہ بننا ہے۔اسرائیلی ان علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل کرنے کے صرف خواب ہی نہیں دیکھتے بل کہ اس کے لیے عملی سطح پر بھی کوشاںہیں۔ صیہونی، اسرائیلی ریاست کے قیام کو اپنی دو ہزار سال پرانی آرزو قرار دیتے ہیں۔1956ءمیں اسرائیل کا برطانیہ اور فرانس کی مدد سے مصر پر حملہ انھی عزائم کی ایک کڑی تھا۔یہ تینوں طاقتیں کامیابی کے قریب تھیں کہ روس کی طرف سے دھمکی کے بعد اقوامِ متحدہ کی کوششوں سے جنگ بندی کے بعد مقبوضہ علاقے خالی کر دیے گئے۔ اس کے بعد 1967ءمیںاسرائیل نے ایک بار پھر امریکی پشت پناہی پر مصر، اردن اور شام پر حملہ کیااور غزہ، جزیرہ نما سینا، مشرقی بیت المقدس، گولان کی پہاڑیوں اور دریائے ا±ردن کے مغربی علاقہ پر قبضہ کر لیا۔ اقوامِ متحدہ نے ایک قرارداد کے ذریعے اسرائیل کو تمام مفتوحہ علاقے چھوڑ دینے کا کہا لیکن اس پر آج تک عمل نہیں ہوا۔ 1973ءمیں رمضان کے مہینے میںمصر اور شام نے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ نہر سویز کے کنارے اسرائیل کی بنائی ہوئی ریت کی 20میٹر اونچی دیوار میں شگاف کر کے مصری فوج صحرائے سینا میں داخل ہو گئی اور وہاں موجود اسرائیلی فوج کا صفایا کر دیا۔ مصر یوں نے اسرائیلی فضائیہ کے دو سو کے قریب ہوائی جہاز بھی سام میزائلوں سے مار گرائے۔ 6 ہزار فوجی اور 200 پائلٹ ہلاک ہونے پر اسرائیل میں کہرام برپا ہو گیا۔ مصری افواج اسرائیل کی سرحد کے قریب پہنچ گئی تھیں۔اس موقع پراگر امریکہ نے اسرائیل کی مدد نہ کی ہوتی تو فلسطین کا مسئلہ حل ہو جاتا۔ سینا کے شمالی سمندر میں امریکی طیارہ بردار بحری جہاز نے اسرائیل کے دفاع کے ساتھ ساتھ پورٹ سعید کا محاصرہ کرنے کے لیے پورٹ سعید کے قریب کے علاقے میں ہزاروں اسرائیلی کمانڈوز اتارے ۔ اسرائیلی کمانڈوز نے پورٹ سعید کا محاصرہ کیا ۔اس وقت پورٹ سعید میں مصری فوج موجود نہیں تھی۔ پورٹ سعید کے شہریوں نے اسرائیلی کمانڈوز کا بے جگری سے مقابلہ کیا اور انہیں شہر میں داخل نہ ہونے دیا۔ اس وقت سعودی عرب میں شاہ فیصل کی حکومت تھی۔ شاہ فیصل نے تیل کے ہتھیار کو استعمال کیا جس پر امریکہ، روس اور اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرا دی۔ 1982ءمیں اسرائیل نے ایک بڑے حملے کے بعد لبنان کے کثیر علاقے پر قبضہ کر لیا۔ اُس وقت کے اسرائیلی وزیرِ دفاع ایریئل شیرون کے حکم پرمہاجر کیمپوں” صابرا“ اور ”شتیلا“ میں عورتوں، بچوں اور بوڑھوں سمیت چار ہزار فلسطینیوں کو قتل کر دیا گیا۔
مشہوریہودی دہشت گرد تنظیمیں’ ہاگانہ‘،” اوردے ونگیٹ“،” ارگون“،” لیہی“،” لیکوڈ“،” ہیروت“،” مالیدت“ نہ صرف مسلم ممالک بل کہ یوروپ میں بھی اپنی کاروائیاں کرتی رہی ہیں۔ یہ دہشت گرد تنظیمیں زیادہ ترفلسطین میں مسلمانوں کے قتلِ عام اور ان کی املاک پر جبری قبضوں کے حوالے سے جانی جاتی ہیں۔ ان تمام تنظیموں کو حکومتی سرپرستی حاصل ہے۔امریکہ اور برطانیہ جب انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بات کرتے ہیں، خصوصاً جب یہ ممالک غریب ملکوں کی حکومتوں پر ایسے الزامات لگاتے ہیں تو فلسطین اور لبنان میں اپنی آشیر باد پر ہونے والے مظالم کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔1973کی جنگ میں ناکامی کے بعد عرب دنیا میں سے کبھی کسی نے سر اٹھانے کی جرات نہیں کی۔ لے دے کے ایران کی طرف سے اسرائیل کو دھمکیاں دی جاتی رہتی ہیں جن پر اسرائیل اور اس کے بڑوں کو تشویش رہتی ہے۔ ایران پر لگائی گئی پابندیاں بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ایران کو پوری دنیا سے الگ کر دیا گیا لیکن ایرانیوں نے ایک بھرپور قوم ہونے کا ثبوت دیا۔ خودانحصاری کے بل بوتے پر اپنا ترقی کا سفر جاری رکھا۔ ایرانی قوم اور حکومتوں نے نہ تو امریکہ کی بالادستی قبول کی اور نہ ہی اسرائیل دشمنی سے ہاتھ اٹھایا۔جب امریکہ نے دیکھا کہ یہ پابندیاں ایران کو جھکا نہیں سکیں تو اس نے اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی کی اور ایران میں احمدی نژاد کے جاتے ہی حسن روحانی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھادیا۔ایرانی حکومت کی جانب سے مثبت جواب کے بعد بات بڑھتے بڑھتے عبوری معاہدے تک آ پہنچی۔ اب یہ عبوری معاہدہ اسرائیلیوں کو ہضم نہیں ہو رہا۔ انھیں یہ خوف لاحق ہے کہ اس معاہدے سے ایرانی طاقت میں اضافہ ہو گا جو کم از کم اسرائیل کے حق میں اچھا نہیں۔امریکہ کی یقین دہانیوں کے باوجود اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو طرح طرح کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ابھی یہ معاہدہ عبوری ہے اور امریکہ ، فرانس، جرمنی اور برطانیہ سے کچھ بعید نہیں کہ وہ آگے چل کر اسے مستقل حیثیت دینے سے احتراز کریں۔ اب تک کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ اسرائیل ان ممالک کا وہ بگڑا ہوا بچہ ہے کہ جو مانگے، اُسے مل جاتا ہے۔ اِن طاقتوں کے اِس معاہدے کے پیچھے کچھ اور مقاصد بھی یقینا ہوں گے لیکن اسرائیل اُن کی مصلحتوں کو سمجھنے سے گریزاں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Dec 01, 2013

Related posts

Leave a Comment