حمزہ یعقوب … "خامشی” کی قرات

"خامشی” کی قرات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قمر رضا شہزاد کا چوتھا شعری مجموعہ "خامشی” کوئی ایک سال سے میری الماری میں موجود تھا۔ یونیورسٹی کے معاملات، وبائی صورتحال اور روایتی نکما پن آڑے آتا رہا جس کے سبب یہ کتاب مری توجہ سے دور رہی۔ کورونا کے بعد لاہور آیا تو "خامشی” کی قرات شروع کی جس نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا۔ "خامشی” میں شامل غزلیات مضامین کے ساتھ ساتھ بیانیے اور تلازمے کے تناظر میں بھی جدید ہیں۔ "خامشی” میں ابہام کی جدید تعریف اور الفاظ کو عمومی معنوں کی قید سے نکال کر انفرادی اور شخصی حوالوں سے وسیع کرنے کی کوششیں بھی واضح طور پر محسوس ہوتی ہیں۔ مثلا

کئی زمانوں کے اسرار پار کرنے پڑے
میں اپنے آپ تک آیا کہاں سے ہوتے ہوئے

اب اس شعر میں "اسرار” کو عمومی بھید یا اسرار و رموز کے معنوں سے نکالنے کی سعی کی گئی ہے۔ یہاں اسرار سے مراد رمز یا بھید نہیں بلکہ وہ تمام تر تاریخی، ثقافتی، شعوری اور لاشعوری منازل و مشکلات ہیں جن کا شاعر کو ادراک ہے اور اسی ادراک کا اظہار و اعتراف مصرع ثانی میں کیا گیا ہے۔
"خامشی” میں روایتی علامات کا جدید استعمال بتدریج نظر آتا ہے جو قاری کے روایتی شعور پر ضرب لگانے کے ساتھ ساتھ اسے سوچنے پر بھی مجبور کر دیتا ہے۔ یہ ضرب صرف فنی سطح پر ہی نہیں بلکہ فکری سطح پر بھی محسوس ہوتی ہے:

فلک کا خوف نہ مٹی کی بد دعا لائی
مجھے تو اپنی طرف ایک ابتلا لائی

فلک کا خوف خدا کو منہ دکھانے اور مٹی کی بددعا مٹی میں مل جانے کے علامتی اشارے ہیں۔ تاہم شعر میں نیا پن پیدا کرنے والی علامت "ابتلا” ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ابتلا کیا ہے؟ کہاں سے آئی اور اس ابتلا میں ایسا کیا تھا کہ اس کی تاثیر فلک کے خوف اور مٹی کی بد دعا سے بھی زیادہ ہو گئی؟ اور آیا یہ ابتلا خارجی ہے کہ اندرونی؟ ان تمام سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کا قریب ترین اشارہ "اپنی طرف” کے الفاظ میں چھپا ہوا ہے۔ اگر اپنی طرف فلک کا خوف اور مٹی کی بد دعا جیسی ہیبت ناک اور طاقتور ابتلائیں نہیں لا سکیں تو اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر بیرونی ابتلاوں کے اثرات سے محفوظ اور بے نیاز ہے۔ اس کا مطلب شاعر کو اپنی طرف لانے والی ابتلا اندرونی ہو گی۔ اب اندرونی ابتلائیں کون کون سی ہو سکتی ہیں؛ انسان کا شعور، لا شعور، شعور و لاشعور کی کشمکش، تحت الشعور، آگہی، ادراک یا یہ تمام چیزیں اور ان تمام چیزوں کا مشترکہ ابتلائی رنگ؟
"خامشی” میں شعور و لاشعور کی کشمکش جگہ جگہ دکھائی دیتی ہے۔ کہیں یہ کشمکش لاشعور کو کھنگالنے کی صورت میں موجود ہے تو کہیں اپنے آپ سے آگہی حاصل کرنے کی شکل میں ڈھلتی دکھائی دیتی ہے:

نکلنا چاہتا ہوں اپنی ذات سے
مگر یہ دشت پار ہو نہیں رہا
میں عکس ہوں کہ آئینہ پتہ نہیں
یہ بھید آشکار ہو نہیں رہا
میں خیر ہوں کہ شر مجھے بتائیے
مرا کہیں شمار ہو نہیں رہا

"خامشی” کی غزلوں میں زیادہ تر متکلم کا صیغہ "میں” ہے لیکن کہیں یہ "میں” تخلیق کار کے اندر کی آواز ہے تو کہیں سماج اور معاشرے کی عکاسی ہے۔ تخلیق کار صرف اپنے اندر کی دنیا سے ربط رکھتا نظر نہیں آتا بلکہ وہ سماج اور سماجی مظالم اور بٹواروں کو بھی اپنی تمام تر حسیات کے ساتھ محسوس کرتا نظر آتا ہے۔
مجموعی طور پر "خامشی” ایک شاندار کتاب ہے اور میری طرف سے اس تخلیق پر قمر رضا شہزاد کو ڈھیروں داد اور مبارکباد۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment