بیدل۔ایک مطالعہ:اختر عثمان۔تبصرہ نگار:شناور اسحاق

تبصرہ نگار: شناور اسحاق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیدل ایک مطالعہ از اختر عثمان
(اونچی دکان پھیکا پکوان)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گذشتہ دنوں مختلف دوستوں کی وال پر مذکورہ بالا کتاب کی اشاعت کی خبر پڑھی تو …. اسلام آباد سے بیٹے کے ہاتھ کتاب منگوا لی اور عید کے دنوں میں اس کامطالعہ کیا … غیر متوقع طور پر سخت مایوسی ہوئی… پتا چلا کہ مجلسی تنقید اور خالص تنقید میں کتنا فرق ہوتا ہے … نثر اور بالخصوص تنقید انتہا درجے کی ذمہ داری کا تقاضا کرتی ہے … بدقسمتی سے اس کا قطعاً خیال نہیں رکھا گیا اور مجھے بعد میں علم ہوا کہ کتاب انھوں نے املا کروائی ہے۔
ذیل میں اپنے تحفظات درج کر رہا ہوں:
1۔ ڈیڑھ سو صفحات کی کتاب میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ بیدل کو گذشتہ 300 سال میں خود بیدل نے سمجھا ہے یا اختر عثمان نے … غالب، اقبال، شبلی،قاضی عبالودود ، مولوی عبدالحق سمیت ایران افغانستان اور ہندوستان کا کوئی آدمی نہیں سمجھ سکا۔
2۔مذکورہ بالا شخصیات نے بیدل فہمی میں کہاں کہاں ٹھوکریں کھائیں اس کا ایک حوالہ بھی نہیں دیا گیا …. لہذا محض اختر صاحب کے جاروبی بیانات کو کیسے مان لیا جائے…. حوالے ڈھونڈنا قاری کا کام ہے یا نقاد اور محقق کا؟
3۔قاضی عبالودود، شبلی اور مولوی عبدالحق کے احترام کا خیال نہیں رکھا گیا۔ مولوی صاحب کو پرانی زبان کا منشی قرار دے دیا گیا …. اختلاف کہ ادب کا قرینہ، اہلِ علم کا وطیرہ رہا ہے۔
4۔یگانہ کو تیسرے درجے کا شاعر قرار دیا گیا ہے … اس سلسلے میں مشفق خواجہ کو بھی رگیدا گیا ہے۔
۔۔۔اب یگانہ دوسرے درجے سے بھی گر گیا؟ آپ کی کیا رائے ہے؟
5۔کتاب چند اعلانات کے گرد گھومتی ہے اور ان کی تکرار باقاعدہ بدمزہ کرتی ہے کہ مقرر کے پاس شاید کہنے کو کچھ نہیں:
۔۔۔۔بیدل عظیم ترین شاعر ہے۔
۔۔۔۔بیدل کو سمجھنا ہر کہ و مہ کے بس کی بات نہیں۔
۔۔۔۔بیدل پر بات کرنے کے لیے بہت سارے علوم پر دسترس کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔بیدل کے لیے مشرق و مغرب کے تنقیدی پیمانے ناکافی ہیں لہٰذا تنقید پہلے نئے ڈسپلن وضع کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ  ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ان باتوں سے انکار نہیں لیکن بار بار یہی جملے بد مزہ کرتے ہیں۔
6۔بیدل کے درجنوں اشعار حوالے کے طور پہ شامل ہیں، کاش ان کا ترجمہ شامل کر دیا جاتا … اب ہر کوئی اختر عثمان، تحسین فراقی اور معین نظامی تھوڑی ہے؟ (اور یہاں تو غالب واقبال وشبلی بے بس ہیں)
7۔لکھا گیا ہے کہ بیدل کے ہاں تصوف نہیں ہے اور تصوف کی یہ کہہ کر خوب خوب مذمت کی گئی ہے کہ یہ بے عملی پیدا کرتا ہے۔ یہ پرانا تھیسس ہے۔ یہاں اخترعثمان اور مودودی صاحب ایک پیج پر ہیں۔ اخترعثمان صاحب کا مسلکی اعتبار سے تصوف اور شبلی کے بارے میں تعصب قابلِ فہم تو ہے لیکن افسوس ناک بھی ہے وہ اس لیے کہ بڑا ادیب تعصبات سے اوپر اٹھ جاتا ہے۔ اگر صوفی شاعروں نے بے عملی پھیلا کر مقتدرہ کی مدد کی (بقول اخترعثمان صاحب) تو رثائی ادب نے کون کون سے انقلابی پیدا کیے؟
اس کتاب میں بیدل کی زبان کے حوالے سے، موضوعات کے حوالے سے. فارسی اور دری کے فرق کے حوالے سے اور ادب میں تہذیب و ثقافت کے تفاعل کے حوالے سے کام کی باتیں کی گئی ہیں۔
میں چاہوں گا کہ اس پر فراقی صاحب اور معین نظامی صاحب ضرور لکھیں تاکہ اس کتاب کی قدر متعین ہو سکے۔

Related posts

Leave a Comment