احمد فاروق

خشک پتّوں میں چلی پُروائی
شاخ نشّے میں کہیں لہرائی

سبز جھیلوں کی طرف لوٹ گئے
راستے جن پہ جمی تھی کائی

یاد زاروں میں اُدھر ُدھند کے پار
سُرخ پھُولوں نے قیامت ڈھائی

حبس تھا اور گھنی تاریکی
دیپ چمکا تو ہَوا بھی آئی

ایک خاموش نظر کی تھی میں
اُس نے آواز مری لوٹائی

کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا مجھے
میں نے یہ بات اُسے سمجھائی

دیکھ تو پانی کہاں مرتا ہے
عشق کے نام ہوَس ہے بھائی!

رات پچھلے کو ہَوا دریا پر
دشت کی پیاس بجھانے آئی

ربط کچھ تھا تو سہی اپنا بھی
کچھ طبیعت نہیں ملنے پائی

چار جانب تھی ہَوا کی دیوار
در کھلا، ایک مہک مُسکائی

لڑکھڑاتے ہوئے پھرتے تھے سائے
دُھوپ بہتی تھی عجب نشّائی

اوس (کرنوں میں پروئی) مالا
چاند ڈوبا تو اُسے پہنائی

بان چلتے رہے دِل کے بھیتر
بَین کرتی رہی مِیرا بائی

یونہی بیٹھا تھا (خلا میں تکتا)
ایک یونہی مرے دِل میں آئی

ایک وہ بات نہیں بھول سکی
وہی جو بات نہیں ہو پائی

Related posts

Leave a Comment