دو کا دھوکا ۔۔۔۔۔ شاہین عباس

طہارت کا ّقضیہ…دُہرا َدجلہ
دُہری تہری ناف کا ڈھلکا
میں دو کوزوں کو دائیں بائیں
بھر کر بیٹھ جاتاہو ں
قیامت بازیوں کا گھاگ لپکاہے
یہ دائیں بائیں کا ٹپکا
میں دو چھینٹوں کا اِک چھینٹا بناتاہوں
قیامت او ِر قیامت کے تناسب سے
یہ چھینٹا مجھ پہ پڑتا ہے
تو خانہ دار، اُدھر اُس پار
تم بھی بھیگ جاتے ہو !
درازی لہر کی ہو ، قہر کی ہو
ہونٹ سے پھر ہونٹ جا چپکا
اِدھر آدھا ابال آدھا اُدھر
حلقوم میں حلقوم کا دھارا ‘ دو دھارا
سارا جا دھڑکا
غٹا غٹ گھونٹ… سجرے گھونٹ
سارے تزکیے کا جھوٹ سچ
اُتھلا اٹل‘ تھل تھل
جنم جل کی ہمیں ڈھارس رہی
چھاگل صفا چھاگل ‘ ر ِیا گاگر یہ جل
زانو بہ زانو ‘ا و ندھے منہ دیکھوں
تو پیندے میں سبھی مایا نظر آتی ہے

قرنوں کے وہی ہتھ چھوٹ
ہلکورے کٹوروں میں
وہی دو چور‘ چوروں میں
عمودی جھالریں پانی کی جیسے
بھڑ گئی ہوں اپنی عریانی کے بل پر
بہتے بہتے‘
رہتے رہتے ساتھ اِک چھت کے تلے
افسوس یہ رہتل…!

تب اِک چھینٹے کو‘ دو چھینٹوں میں
پھر سے بانٹ دیتا ہوں
یہ سیدھے ہاتھ ، سیدھی آنکھ کا برتن
یہ الٹے ہاتھ ‘ الٹی آنکھ کا برتن
یہ خانہ زادکا نشہ
وہ خانہ دار کا ‘ اُس پار کا نشہ
بغل میں داب کر
ہر دو طرف کی َرمز و َرغبت
دھاری دھاری ُبو پسینہ
اَز مدینہ تا مدینہ
پھر تمھاری سمت میں سر پٹ
کہاں میں اور کہاں رفتار کا نشہ!!

Related posts

Leave a Comment