ارشد عباس ذکی … کچھ اس طرح سے بھی اپنا بھرم بچانا پڑا

کچھ اس طرح سے بھی اپنا بھرم بچانا پڑا
اداس ہوتے ہوئے قہقہہ لگانا پڑا

میں چاہتا تھا خیانت نہ ہو محبت میں
جو خواب دیکھ رہا تھا اُسے دکھانا پڑا

اداس ہونا پڑا دیکھ کر اداس اسے
وہ مسکرائی تو مجھ کو بھی مسکرانا پڑا

حرام جانتے تھے ہم بھی خودکشی کو مگر
وہ آنکھیں اتنی حسیں تھیں کہ ڈوب جانا  پڑا

کسی کو مانگے بنا دے دیا تھا دل اپنا
نصیب میں بھی نہیں تھا جو زخم کھانا پڑا

Related posts

Leave a Comment