اکرم کنجاہی ۔۔۔ شبنم شکیل(مضمون)

شبنم شکیل

۱۹۶۰ ء کے عشرے میں جو شاعرات  اُردو ادب میں سامنے آئیں، اُن میں ایک اہم نام شبنم شکیل کا بھی ہے۔ابتدائی طور پر کالج کے مشاعرے اُن کی پہچان بنے۔وہ اچھا شعر کہنے کے ساتھ خوش آواز بھی تھیں۔ ممکن ہے اِس میں ریڈیو سے اُن کی وابستگی کا بھی حصہ رہا ہو۔جہاں اُن کی تربیت میں صوفی غلام مصطفی تبسم، مصطفی ہمدانی،قتیل شفائی، انور سجاد نے بھی کچھ نہ کچھ کردار ضرور ادا کیا۔اگرچہ وہ سیّد عابد علی عابد جیسے بلند قامت شاعر ، مفکر، دانش وراور نقاد جیسی شخصیت کی صاحب زادی تھیں مگر ناقدینِ فن کا خیال ہے کہ شاعری اُن کی ذاتی محنت اور کوشش کا نتیجہ تھی، اُس میں شبنم کے عالم و فاضل والد کا کوئی کردار نہیں رہا۔البتہ یہ ضرور ہے کہ بچپن میں انہیں اپنے ہاں ڈاکٹر تاثیر، صوفی تبسم، پطرس بخاری، فیض اور قتیل شفائی جیسی شخصیات کو اپنے گھرمیں قریب سے دیکھنے اور اُن کی گفتگو سننے کا موقع ضرور ملا۔ شادی کے بعد خاصے عرصے تک وہ شعر گوئی سے دور رہیں۔اِس کی وجہ لا شعوری طور پر یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انہوں نے بچپن میں اپنے گھر کو بکھرتے دیکھا تھا۔اُن کے شوہر  شکیل احمد ایک نفیس انسان تھے۔وہ سرکاری افسرتھے اور ان کی تعیناتی مختلف جگہوں پر ہوتی رہتی تھی، لہٰذا وہ بھی مختلف کالجوں میں درس و تدریس سے منسلک رہیں۔
شبنم کا پہلا شعری مجموعہ ’’شب زاد‘‘ ۱۹۸۷ء میں شائع ہواجو روایتی موضوعات کی غزلیات پر مشتمل تھا۔ بعد ازاں ’’اضطراب‘‘ اشاعت پذیر ہوا جس میں غزلوں کے علاوہ نظمیں بھی شامل تھیں۔ تیسرا مجموعہ ’’مسافت رائیگاں تھی‘‘ منظر عام پر آیا۔انہوں نے افسانے بھی لکھے جو ہمارے ارد گرد بکھرے سماجی اور معاشرتی مسائل پر مبنی تھے اور ’’نہ قفس نہ آشیانہ‘‘ کے نام سے زیور طباعت سے آراستہ ہوئے۔اُن کے خاکوں کی کتاب ’’آواز تو دیکھو‘‘ بھی شائع ہوئی، جس کاموضوع وہ مسلمان گلو گار ائیں تھیں کہ ۱۹۴۰ء کی دہائی میں جن کا طوطی بولتا تھا۔ اُن کے تاثراتی مضامین جو ادبی تقریبات میں پڑھے گئے یا براہ راست شخصیات کے فکر و فن پر لکھے گئے، اُن چوالیس مضامین پر مشتمل کتاب ’’تقریب کچھ تو‘‘ کے نام سے سامنے آئی۔
اُن کا پہلا شعری مجموعہ ’’شب زاد‘‘ کافی تاخیر سے منظر عام پر آیا۔ یہی وجہ تھی کہ اُس میں شادی سے پہلے کی غزلوں کی تعداد بہت کم تھی۔وہ عہد بیسویں صدی کے نصف آخر کاتھا جس میں نظم بھی بہت مقبول ہو رہی تھی، خاص طور پر فیض جو بہ یک وقت ترقی پسند اوررومانوی شاعر  تھے بہت مقبول تھے مگرشبنم نے اپنا الگ اور آزادانہ راستہ منتخب کیا۔اُن کی ابتدائی غزل روایت اور کلاسیکیت  کے رنگ میں تھی جس میں اُن کا مخصوص نسائی لہجہ نمایاں تھا۔انہوں نے لطیف جذبات کو برقرار رکھتے ہوئے کلاسیکی غزل کو جدید عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بھی کوشش کی۔اُن سے پہلے ادا جعفری شاعری میں اپنا مقام متعین کروا چکی تھیں مگر اُن کے ہاں نسائی لب و لہجہ اتنا واضح نہیں تھا جتنا شبنم کے ہاں نمایاں ہوا۔غزل کی دنیا میں نسائی موضوعات اور حقائق کو پیش کرنا اور ساتھ ہی غزل کو معنوی اعتبار سے روایت سے الگ کر کے جدید رنگ دینا، متعین موضو عات سے پہلو تہی کرنا، اُن کے غزل کے بار ے میں جدید اسلوبِ بیاں کا تاثر  نمایاں کرتا ہے۔’’شب زاد‘‘ سے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

دیکھنا تو صبح دم گلزار بن جائے گی آگ
جلتے انگاروں پہ دن بھر اور شب  بھر رقص کر
٭
وہ خواب تھا کہ وہم تھا اِس پر نہ جائیے
اُس کے لیے ہماری تگ و دو تو دیکھیے
٭
میں سوچتی ہوں زرد پھولوں کی قطاریں دیکھ کر
چاروں طرف کھلتی ہوئی سرسوں پہ رنگ آیا مرا
٭
آئنے سے رو کے پوچھا جب کبھی میں کون ہوں
آئنہ بولا وہیں فوراً پلٹ کر، کچھ نہیں
٭
عشق کا بھاری پتھر ہم نے چوم کے چھوڑ دیا
یہ اک مشکل کام تھا اور دل تھا نازک اندام
٭
زمانہ ایسا ہی تھا جیسا آج ہے لیکن
تھے ہم تباہی پہ اپنی ادھار کھائے ہوئے

شبنم شکیل نے جذباتِ محبت کے اظہار کے لیے غزل کی اشاریت،رمزیت اور ایمائیت سے فائدہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہیں بھی بے باکانہ لہجہ اختیار نہیں کیا۔شبنم نے عورت کے مسائل کا آج کے وسیع تناظر میں ادراک کیا ہے۔وہ اِس بات سے آگاہ تھیں کہ مرد اساس معاشرے میں عورت لاکھ چاہے مگر وہ اُن تعصبات سے محفوظ نہیں رہ سکتی جو سماج اور معاشرت میں جاری ہیں۔ اُس کے ہاں یہ سب کچھ ایک مشرقی عورت کے سلیقے اور رکھ رکھاؤ کے ساتھ نظر آتا ہے جو ایک طرف تواپنے سہاگ کے لیے سب کچھ تج دینے کا جذبہ رکھتی ہے تو دوسری طرف ایک سلیقہ شعار ماں بھی ہے جو ورثے میں کچھ اچھے افکار اپنے بچوں کو دیناچاہتی ہے۔اُس نے اپنی شاعری پر فیمننزم کا ٹیگ نہیں لگنے دیا حا لاں کہ ایک عام عورت کے مسائل، داخلی کرب اورر جد و جہد کی عکاسی معاصرین سے بہتر انداز میں کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُن سے متعلق اکثر کہا جاتا ہے کہ وہ نفیس شخصیت، اچھی شاعرہ اور خوش آواز تھی۔اُن کے تینوں مجموعے ایک واضح فکری ارتقا کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اضطراب کے شعری موضوعات بہر حال شب زاد سے یک سر مختلف ہیں۔ اضطراب اور مسافت رائیگاں تھی سے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

میرا گھر بھر میرے بچوں کی ہنسی سے گونجے
کبھی فرصت  ہو میسر تو اُتاروں میں نظر
٭
کوئی آشوب ہو ماں کی دعائیں ساتھ ہیں جب تک
حصارِ امن میں ہوں خیر کی ساعت میں رہنا ہے
٭
اُن کا بھی کچھ حق ہے ہم پر اُن کے بھی کام آئیں گے
اپنے بچوں کو ورثے میں سوچ اپنی دے جائیں گے

اُن کے آخری دور کی غزلوں اور تیسرے مجموعۂ کلام ــ’’مسافت رائیگانی تھی‘‘ میں سفر ایک علامت و استعارے کے طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے۔سفر اور وقت کے حوالے سے لفظ رائیگانی بھی شاعری  میں اہمیت اختیار کرتا محسوس ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی کسک رہ گئی ہے جو لب و لہجے کی شکستگی میں تشنگی، ناتمامی اور رائیگانی کی صورت آخری دور کی شاعری میں نمایاں ہے۔شب  زاد میں اگر محبت کے خوب صورت شیڈز ہیں اور اضطراب میں بے چینی اور بے قراری نمایاں ہے تو مسافت میں طویل لا حاصل سفر کی تھکاوٹ، بے ثمری،بے بضاعتی اور بے سمتی کا دکھ ہے۔مختصر یہ کہ اُن کی غزل حسن و عشق کی جاذبیت،عورت کے داخلی کرب اور مسائل سے لے کر سفر کی بے توقیری، موت کی حقیقت اور دیگر عصری و اجتماعی شعور جیسے ایک واضح ارتقا سے گزری ہے۔کہیں کہیں بالکل آخری دور کا کلام تو اِس بات کی غمازی بھی کرتا ہے کہ شاید  زندگانی کے اِس سفر کے تمام ہونے کا اُسے پہلے سے علم ہو گیا تھا، ’’مسافت رائیگانی تھی‘‘ سے چند اشعار دیکھیے:

ہونے اور نہ ہونے کا اک برزخ ہے ہم جس میں ہیں
جس میں شام گھلی رہتی ہے ایسی سحر میں رہتے ہیں
٭
مری ہر اک مسافت رائیگاں تھی
مجھے تسلیم کرنا پڑ رہا ہے
٭
لوٹ کر نہ اب آ سکیں شاید
یہ مسافت عجب ہے مل جاؤ
٭
مسافر کس قدر جلدی میں ہے اور
مسافت وقت کتنا لے رہی ہے

یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:

رو رو کر آنکھیں لال ہوئیں، تم کیوں سکھیو بے حال ہوئیں
اب ڈولی اٹھنے والی ہے لو آؤ مجھ کو پیار کرو
یہ کیسا انوکھا جوڑا ہے جو آج مجھے پہنایا ہے
میں حوروں جیسی دلہن بنی ان اٹھو اور دیدار کرو

اُنہوں نے ’’اضطراب‘‘ میں پہلی بار نظمیں کہی تھیں۔اُن کی غزل اور نظم میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ غزل میں دھیما پن ہے جب کہ نظم میں مشرقی عورت وہ شہری ہو یا دیہاتی، دونوں کے مسائل اور کرب بلند آہنگ لہجے میں پیش کیے گئے ہیں۔وہ عورت کو بلند مقام اور با وقار دیکھنے کی متمنی ہے۔اُن کی اپنی ذاتی زندگی اِس بات کی غماز ہے کہ اُنہیں ہمارے سماج میں عورت کی حدود و قیود بھی اچھی طرح معلوم ہیں مگر وہ فرسودہ رسوم کے خلاف ہے۔ وہ نہیں چاہتیں کہ اُس کی جائز خواہشات جبر کے نیچے سسکتی ہوئی دم توڑ جائیں۔اُن کی نظمیں ’’منکہ اصغری خانم، ورثہ، ایک دفعہ کا ذکر ہے، موت کے کنویں میں سائیکل چلانے والی، بانجھ پن کی دعا،ایک گاؤں کی کہانی، ہر خواب ہمارا تھا فردا کے حوالے سے، روپا ہو گئے کیس‘‘ وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جو مختلف حوالوں سے عورت کے دکھ درد اور تکالیف کا احاطہ کرتی ہیں۔اُن کی نظمیں اُس دیہاتی عورت کے دکھ بھی بیان کرتی ہیں جو وہاں کی جاہل معاشرت اور سماج کے اس قدر تابع فرمان ہے کہ اُن کی خواہش پر اپنا حسن گہنا لیتی ہے (نظم کا آخری حصہ ملاحظہ کیجیے):
وہ نار اِن طعنوں مہنوں  پر
ہرنی کی طرح گھبرائی بہت
گھبرا کر اُس نے گاؤں کی مٹی سے چہرے کو گردایا
تب کور نظر چھوٹے دل والے لوگوں کو کچھ چین آیا
٭

Related posts

Leave a Comment