تہذیب حسین برچہ ۔۔۔ ستم ہے یا کہ کرم اضطراب ہوکے رہا

ستم ہے یا کہ کرم اضطراب ہوکے رہا
عجیب روگ ہے زیرِ عتاب ہوکے رہا

وفا کی جنس ہے ناپید کچھ خیال رہے
چلن فریب کا تازہ نصاب ہوکے رہا

امید ٹوٹی ہوئی، خواب سربریدہ ہیں
ہوائے ہجر میں خانہ خراب ہوکے رہا

متاعِ زیست سمجھ بیٹھا تھا اسے کھویا
عجیب سانحہ مجھ پر جناب! ہوکے رہا

سفر تھا شرط خدا تھا کہ ناخدا تہذؔیب
رضا سے جس کی ہمیشہ خراب ہوکے رہا

Related posts

Leave a Comment