حمید حیدر اعوان ۔۔۔ صحرا میں قافلے کے نشاں ڈھونڈتا رہا

صحرا میں قافلے کے نشاں ڈھونڈتا رہا
بچھڑے تھے کس جگہ میں کہاں ڈھونڈتا رہا

دشمن نے کند تیر سے بدحال کر دیا
اور میں کہ تیز دھار سناں ڈھونڈتا رہا

احساس، بندگی کا اُسے دیر سے ہوا
غافل، سکون پیشِ بُتاں ڈھونڈتا رہا

تسخیرِ کائنات کے جذبے سے لیس تھا
پیری میں بھی وہ تاب و تواں ڈھونڈتا رہا

حیدر جو با وفا تھے وہ سولی پہ چڑھ گئے
میں عشق میں بھی سود و زیاں ڈھونڈتا رہا

Related posts

Leave a Comment