خاور اعجاز … دو غزلیں (ماہنامہ بیاض اکتوبر ۲۰۲۳)

دن میں آرام مَیں نہیں کرتا
کچھ سرِ شام مَیں نہیں کرتا

کامیابِ جنوں تبھی تو ہُوں
عقل کے کام مَیں نہیں کرتا

زندگی بھر کی دوستی کیجے
گام دو گام مَیں نہیں کرتا
گفتگو منتخب سے رکھتا ہُوں
جلسۂ عام مَیں نہیں کرتا

بحث و تمحیص آپ ہی جانیں
فالتو کام مَیں نہیں کرتا

۔۔۔۔۔۔۔

یونہی تو خواب نہیں ہر کسی دیوانے کا
خلد حصہ ہی نہ ہو نجد کے ویرانے کا

دوستوں سے ہی مجھے خدشہ ہے بہکانے کا
دشمنوں کے تو مَیں قابو میں نہیں آنے کا

گردشِ وقت ٹھہر جائے جو اِس پر رکھ دیں
ایک ٹکڑا مِرے ٹوٹے ہُوئے پیمانے کا
سانس روکی ہُوئی ہے ، بند ہیں آنکھیں میری
اوِر دعا گو ہُوں یہ حالات بدل جانے کا

مصحفِ دہر بڑے شوق سے کھولا تھا مگر
اِک ورق نکلا یہ قصہ مِرے افسانے کا

Related posts

Leave a Comment