سید آل احمد ۔۔۔ حادثوں میں رہتا ہے چہرہ لالہ گوں اپنا

حادثوں میں رہتا ہے چہرہ لالہ گوں اپنا
حوصلے کا آئینہ ہے دلِ زبوں اپنا

تیرا دھیان بھی جیسے کعبۂ تقدس ہو
تیرے بعد بھی رکھا ہم نے سرنگوں اپنا

رخشِ وصل کی باگیں دستِ شوق کیا تھامے
فصلِ انبساط آگیں حال ہے زبوں اپنا

فاصلوں کی دوپہریں رنگِ رُخ اُڑاتی ہیں
خون خشک کرتا ہے دور رہ کے کیوں اپنا

عقل بیٹھ جاتی ہے تھک کے جب دوراہے پر
کام آ ہی جاتا ہے جذبۂ جنوں اپنا

تجھ پہ بار کیوں گزرا میری چپ کا سناٹا
تو جو خود سے مخلص ہے میں نہ ساتھ دوں اپنا

ذہن غم کی راہوں میں راستہ سجھاتا ہے
ہر نفس ’’وفا دشمن‘‘ پاسبان ہوں اپنا

بے سکون سچائی‘ جھوٹ کی علامت ہے
معتدل ہی رہتا ہے قلزمِ دروں اپنا

ترکِ ربطِ باہم پر یہ تعلقِ خاطر
رات وہ فسردہ تھا‘ دُکھ ہوا فزوں اپنا

تیغِ بادِ بدخوئی ظرف سے پشیماں ہے
ضبطِ غم کے مقتل میں کر رہا ہوں خوں اپنا

مجھ کو اس کی مٹی بھی زندگی سے پیاری ہے
خوفِ قہرِ رُسوائی! شہر چھوڑ دوں اپنا

دشتِ روح کی دلدل ہے بدن کی تاریکی
اے لہو کی خوش فہمی! کیا سراغ دوں اپنا

رنگ و بوئے گلزارِ صبح کی ضمانت ہوں
کشتِ ذہنِ تازہ کو دے رہا ہوں خوں اپنا

بندشِ لبِ نغمہ فن کی سرد چھاؤں میں
مصلحت کی چھینی سے بت تراش لوں اپنا

کتنی خاک چھانی ہے پھر بتاؤں گا احمدؔ
پہلے دُکھ کے صحرا میں دن گزار لوں اپنا

Related posts

Leave a Comment